لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر ٗ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون بھی عدالتی توثیق کے محتاج ہوجائیں تویہ کون سا آئین ہے؟پارلیمنٹ کابنایا گیا قانون من مانی تعبیر سے ختم کرنا خطرناک ہوگا ٗ پارلیمنٹ کے کسی قانون کی تشریح کی ضرورت ہے تو ابہام دور کرنے پارلیمنٹ بھیجنا چاہیے ٗ آئین ریاست کا نظام چلانے والی سب سے مقدس دستاویز ہے ٗ
جج صاحبان کا آئین کو مقدس اور بالا تر دستاویز قرار دینا خوش آئند ہے ٗ32برسوں تک آمروں نے دستور کو ردی کی ٹوکری میں ڈالے رکھا ٗآمروں کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے سب کچھ دیکھتے رہے، آج تک آئین کو کوئی زخم پارلیمنٹ نے نہیں لگایا، سارے زخم صرف عدلیہ کے کچھ جج صاحبان کی مدد سے آمروں نے لگائے۔وہ بدھ کو جاتی امراء میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے مختلف وفود سے گفتگوکررہے تھے ۔انہوں نے کہاکہ آئین بلاشبہ ریاست کانظام چلانے والی سب سے مقدس دستاویز ہے لیکن یہ دستاویز عوم کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ ہی بناتی ہے ۔ آئین کو پارلیمنٹ کی تخلیق سمجھا جاتا ہے اورپارلیمنٹ اس کے ذریعے دیگر اداروں اورخود اپنی حدود کا تعین کرتی ہے ۔اگرچہ پارلیمنٹ کو عدلیہ اورانتظامیہ کے ساتھ ایک ریاستی ستون کہا جا تا ہے لیکن دنیا بھر میں اسے تمام اداروں کی ماں بھی سمجھا جاتا ہے ۔ نوازشریف نے کہاکہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے جج صاحبان نے آئین کو ایک مقدس اوربالا تر دستاویزقرار دیا ہے اگر ہماری عدلیہ کاکچھ حصہ حقیقی معنوں میں ایسا ہی سمجھتی تو 70برس کے دوران نہ جمہوریت رسوا ہوتی ، نہ آئین روندنے والوں کی وفاداری کے حلف اٹھائے جاتے ، نہ ہی ڈکٹیٹروں کو آئین میں من مانی ترامیم کی اجازت دی جاتی ، 32برس تک آمروں نے دستور کو ردی کی ٹوکر میں ڈالے رکھا اوران کے ہاتھ پربیعت کرنے والے سب کچھ دیکھتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ 1973سے لیکر آج آئین کو کوئی زخم پارلیمنٹ نے نہیں لگایا ،
سارے زخم صرف عدلیہ کے کچھ جج صاحبان کی مدد سے آمروں نے لگائے ۔ نوازشریف نے کہاکہ پارلیمنٹ عوام کے ووتوں سے منتخب ہونے والا بالا ترین ادارہ ہے جو تمام دیگر اداروں کی حدود کا تعین کرتا ہے ۔اسے آئین میں ترامیم کا اختیار بھی حاصل ہے ۔ آئین بنانے اور آئین میں ترامیم کا اختیار رکھنے والے منتخب ادارے کی اتھارتی کو چیلنج کرنا ریاستی نظام کو چیلنج کرنا ہے ۔ میں نے کراچی میں وکلاء سے خطاب میں کہاتھا کہ ایک ریاستی ادارے نے عملاً انتظامیہ کو مفلوج کردیا ہے اور اب اس کے ہاتھ پارلیمان کے گریبان تک پہنچ گئے ہیں ۔اگر پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو بھی اپنی صوابدید اورمن مانی تعبیر کے ذریعے ختم کردیاگیا تو یہ ایک خطر ناک عمل ہوگا ۔
پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی قانون کی تشریح و تعبیر کی ضرورت ہے بھی تو اسے پارلیمنٹ کی طرف بھیج دینا چاہیے کہ وہ اس کے ابہام کو دور کردے ۔ اگر انتظامیہ کسی کی تقرری اور تبادلہ تک نہیں کرسکتی اور پارلیمنٹ کے قانون بھی عدالتی توثیق کے محتاج ہوجاتے ہیں تو یہ کون سا آئین ہے ؟کم از کم ہمار آئین تو یہ نہیں کہتا ۔نوازشریف نے کہاکہ اداروں کا احترام ان اداروں کی کارکردگی اور کردار سے ہوتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ جو کچھ ہورہا ہے ، وہ پوری قوم دیکھ رہی ہے اوراللہ کا شکر ہے کہ اس باشعور قوم کوپوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ایک فرد ایک خاندان کونشانہ بنانے کیلئے کس طرح کے حربے اختیار کئے جارہے ہیں اورکیوں کر آئین کو بھی تماشے بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔