لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے جاتی امراء ، گورنر ہاؤس ، ماڈل ٹاؤن سمیت تمام مقامات سے سکیورٹی کے نام پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے بیان حلفی کے ساتھ عملدرآمد رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی ،جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر اہم شخصیات کو سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے تو اس مسئلے کو کسی دوسرے طریقے سے حل کیا جائے لیکن عوام کو پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے،
وزیر اعلی عوامی آدمی ہیں اور انہیں کہنا چاہیے شہباز شریف کسی سے نہیں ڈرتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چھٹی کے روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پینے کے صاف پانی ، ویسٹ مینجمنٹ اور سکیورٹی کے نام پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے متعلق از خود نوٹسز کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کے طلب کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ صوبائی وزراء رانا ثنا اللہ خان ،رانا مشہود احمد خان، ذکیہ شاہنواز ، ترجمان پنجاب حکومت ملک محمد احمد خان ،وزیر اعلیٰ کے مشیر خواجہ احمد حسان ،لارڈ میئر لاہور کرنل (ر) مبشرجاوید ،چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید ، آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز سمیت بیورو کریسی کے دیگر اعلیٰ افسران بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بند کی گئی سڑکوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کی۔ جس پر چیف جسٹس نے پنجاب کی انتظامیہ سے استفسار کیا کہ سڑکیں کس قانون کے تحت بند کی گئی ہیں؟۔عدالت کو بتایا گیا کہ ماڈل ٹاؤن، گورنر ہاؤس اور جاتی امرا ء سمیت اہم مقامات کو سکیورٹی کی وجہ سے بند کیا گیا ہے اور راستوں میں بیریئرز لگائے گئے ہیں۔سپریم کورٹ نے جاتی امراء ، گورنر ہاؤس ،ماڈل ٹاؤن، آئی جی آفس ،منہاج القرآن ،ایوان عدل ، پاسپورٹ آفس ،جامعہ قادسیہ، حافظ سعید کی رہائشگاہ،
چوبرجی اور ایوان عدل سمیت تمام مقامات سے رات بارہ بجے تک رکاوٹیں بلاامتیاز ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری ہوم میجر (ر) اعظم سلیمان کو ہدایت کی کہ آج پیر کے روز بیان حلفی کے ساتھ عملدرآمد رپورٹ جمع کرائی جائے ۔ فاضل عدالت نے ایرانی اور چینی قونصلیٹ پر سکیورٹی برقرار رکھنے کا حکم دیا ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز اور ڈی جی رینجرز کے گھر کے باہر کھڑی رکاوٹوں کو بعد میں دیکھیں گے۔
میجر (ر) اعظم سلیمان نے کہا کہ رکاوٹیں دھمکیاں ملنے کی وجہ سے لگائی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مجھے دھمکیاں نہیں ملتیں، وزیراعلی کو ڈرا دھمکا کر گھر میں نہ بٹھائیں ،اپنی فورسز کو الرٹ کریں،سکیورٹی کے لیے وزیر اعلی کے گھر پر ماہر نشانے باز بٹھا دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیر اعلی عوامی آدمی ہیں اور انہیں کہنا چاہیے شہباز شریف کسی سے نہیں ڈرتا۔چیف جسٹس نے وزیراعلی سے کہا کہ آپ تو عوامی آدمی ہیں،
آپ کو خود رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دینا چاہیے تھا،افسران اور پولیس اہلکاروں نے کیوں آپ کو ڈرا کر رکھا ہے؟۔چیف جسٹس نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ،وزیراعلی سندھ کی طرح آپ نے بھی عدالت آکر اچھی روایت قائم کی، ہم آپ کے مشکور ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے وزیراعلی پنجاب سے استفسار کیا کہ کیوں وزیراعلی صاحب ہم ٹھیک کر رہے ہیں جس پر شہباز شریف نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ ٹھیک کررہے ہیں،
اگر میں کچھ بولا تو حکم عدولی ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکم عدولی نہیں کر سکتے، آپ ایک لیڈر ہیں، میں جانتا ہوں آپ اگلے مورچوں پر لڑنے والے ہیں، ایک آپ ہی تو ہیں جو عدالت کا احترام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ان معاملات کا مقصد سیاست کرنا نہیں، عدلیہ اور انتظامیہ مل کر عوامی حقوق کا تحفظ کریں۔سماعت کے دوران عدالتی معاون نے دریائے راوی میں گندہ پانی ڈالنے کی رپورٹ پیش کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دس سال سے حکومت میں ہیں مگر ہمیں مسائل پر نوٹس لینا پڑا اورآپ یہاں کھڑے ہیں ،
سوال یہ ہے کہ کیا گندہ پانی پاکستانی عوام کے لیے وبال جان ہے یانہیں ؟ ۔سماعت کے دوران صوبائی وزیر رانا مشہود کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل کے کان میں سر گوشی کرنے پر چیف جسٹس آف پاکستان نے شدید برہمی کا اظہار اورسرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ عدالت کا ڈیکورم کیا ہے ؟اپنی نشست پر بیٹھیں ۔ وزیر اعلی کی موجودگی میں جو وزرا پھرتیاں دکھائیں مجھے اچھے نہیں لگتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دریاؤں میں گند ڈالا جا رہا ہے اور حکومت نے ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگائے، جو ہو گیا وہ ہو گیا آگے کیا کرنا ہے۔
وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ میں بھی انسان ہوں، غلطی کر سکتا ہوں، صوبے کے عوام کی خدمت کے لیے پوری کوشش کر رہا ہوں۔شہباز شریف نے کہا کہ ہسپتالوں سے نکلنے والے فضلے پر بڑا کام کیا، ہمارا سسٹم بہت اچھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو دن ان مقدمات کی سماعت کی لیکن ماحولیات اور صحت کے معاملے پر ہم مطمئن نہیں ، ویسٹ دس سال سے پانی میں جا رہا ہے، ہسپتالوں کی ایمرجنسی کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ آپ کی ہر خواہش میرے لئے حکم ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے مفاد عامہ کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کئے ہیں ،
منصوبوں کا مقصد شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی ہے ،ہم نے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگائے ، گیس کے پلانٹ لگائے ان سے خطیر رقم بھی بچائی۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا کول پاور پلانٹ کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ شہباز شریف نے جواب دیا کہ اس کے لئے عالمی معیار کی ٹیکنالوجی اپنائی گئی ہے ،ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لئے اقدامات کررہے ہیں، ہر پراجیکٹ پر اربوں ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، ہم اس بات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ کم لاگت میں اس کو کیسے پورا کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ہسپتالوں کی حالت خراب ہے ،
میں نے ہسپتال کا دورہ کیا توآپ کے قائدین نے اس پر اعتراض کیا ،مجھے ان اعتراضات کی کوئی پرواہ نہیں ۔ شہبازشریف نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور بحالی کی تحریک چلانے والے ہم ہیں ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میاں صاحب یہ بات اپنی پارٹی کوبھی بتائیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ صاف اور شفاف انتخابات کرائیں ،تین بار کہہ رہا ہوں ہم یہاں ہیں اب ملک میں آزاد اور شفاف الیکشن ہوں گے۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے چیف جسٹس سے کہا کہ تین ہفتوں کا وقت دیا جائے جامع اور قابل عمل منصوبہ لیکر پیش ہوں گے جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے وزیر اعلی کو 3ہفتوں میں صاف پانی ،ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے قابل عمل منصوبہ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔