کراچی (آن لائن)سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے ماتحت ہونے والے ایک اور جعلی پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں جس میں 18 سالہ جنید ابڑو کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں جعلی پولیس مقابلے کا ایک اور مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق سندھ کے شہر قمبر شہداد کوٹ کے علاقے میرو خان سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ جنید ابڑو نیو کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔
اسے 25 دسمبر کو نیوکراچی سے پکڑا گیا اور اگلے روز سائٹ سپر ہائی وے پولیس نے مقابلے کے نام پر مار دیا۔ اہل خانہ کے مطابق پولیس نے جنید ابڑو اور اس کے ساتھ مارے گئے افراد پر ڈاکو ہونے کا الزام لگایا۔ جنید ابڑو اگر ڈاکو تھا تو اس کی موت قطعی طور پر مقابلہ ظاہر نہیں کر رہی اسی بنا پر عدالتی احکامات کے بعد آئی جی سندھ نے سی ٹی ڈی سندھ کو پولیس مقابلے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔سی ٹی ڈی کے سربراہ ثناء4 اللہ عباسی نے ایس پی پرویز چانڈیو پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جنہوں نے دونوں فریقین کو طلب کرکے زبانی موقف سنا ہے۔اس موقع پر جنید ابرو کے لواحقین عینی شاہدین اور متعلقہ پولیس افسران اور اہلکاروں کو باقاعدہ بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیر کی صبح اپنے دفتر طلب کیا گیا ہے۔ابتدائی تحقیقات کے دوران جنید ابڑو کے اہل خانہ نے دو تصاویر حکام کے سامنے پیش کی ہیں۔ ایک تصویر میں جنید ابڑو زخمی حالت میں زندہ نظر آرہا ہے جبکہ دوسری تصویر لاش کی ہے جس کے چہرے پر گولیاں لگی ہیں جو زخمی تصویر میں نہیں۔جنید کو زخمی ظاہر کرنے والی تصویر ایک ایمبولینس ڈرائیور نے بنائی تھی جس کا بیان سنسنی خیز اور پولیس کی بربریت کو ظاہر کر رہا ہے۔ ایمبولینس ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اسے 26 دسمبر کو سائٹ سپر ہائی وے پولیس نے مقابلے
میں ہلاک افراد کی لاشیں اسپتال منتقل کرنے کے لئے بلوایا۔ ڈرائیور کے مطابق اس نے لاشیں ایمبولینس میں منتقل کرنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ ایک نوجوان زندہ تھا۔ اس نے اس کی تصویر بنائی اور تھانے کے اندر جاکر ڈیوٹی افسر کو نوجوان کے زخمی ہونے کی نشاندہی کی۔ زخمی کو علاج کیلئے فوری طور پر اسپتال لے جانے اور ڈاکٹر کے لیے تھانے کا لیٹر دینے کا کہا۔ڈرائیور کے مطابق اس کی بات کوسن کر تھانے میں ہلچل مچ گئی۔
اسے انتظار کرنے کا کہا گیا کہ اس دوران تھانے کے باہر 2 گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ چند منٹ بعد پولیس اہلکار نے آکر کہا کہ ’اسے لے جاؤ اب مرگیا ہے‘۔ ڈرائیور کے مطابق وہ باہر آیا تو دیکھا نوجوان مرچکا تھا اور اس کی پیشانی پر گولی لگنے کا تازہ نشان تھا۔بھائی یونس ابڑو کے مطابق وہ بھائی کو تلاش کرتے کرتے سرد خانے پہنچے تو اس کی لاش ملی۔ تھانہ سائٹ سپر ہائی وے پہنچے تو انہیں پولیس کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
اہل خانہ کے مطابق 18 سالہ جنید بے گناہ تھا۔اس کی موت کی المناک کہانی سن کر انہوں نے ہر ممکنہ دروازہ کھٹکھٹایا مگر انصاف نہیں ملاکیوں کہ یہ تھانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے ماتحت آتا تھا اس کا نام سن کر تو کوئی بھی کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔اہل خانہ کے مطابق نقیب قتل کیس کا مقدمہ درج ہوا تو انہیں انصاف کی کچھ امید ہوئی۔ عدلیہ اور اعلیٰ حکام کو درخواستیں دیں تو آئی جی سندھ نے پولیس مقابلے کی تحقیقات کا حکم دیا۔سی ٹی ڈی کے ایس پی پرویز چانڈیو کے مطابق جنید ابڑو کیس کے حوالے سے ابھی تک متعلقین کا زبانی موقف سنا ہے۔ باقاعدہ تحقیقات کیلئے لواحقین اور متعلقہ پولیس افسران اور اہلکاروں کو پیر کو اپنے دفتر طلب کیا ہے۔