اسلام آباد(آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈی جی آئی بی عدالت میں پیش ہوئے مگر وہ وائرل آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے رپورٹ پیش نہ کر سکے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ جمع نہ کرانے پر
متعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوگی، عدالت نے سیکرٹری دفاع کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ سیکرٹری دفاع رپورٹ میں بتائیں کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا، عدالت نے سیکرٹری دفاع، داخلہ اور سیکرٹری قانون کو بھی رپورٹ سمیت طلب کر رکھا تھا جب کہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو وائرل آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرسکے جس پر عدالت نے ان کی سرزنش کی اور 12 فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سیکرٹری دفاع رپورٹ میں بتائیں کہ مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں رپورٹس جمع نہ کرانے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔خیال رہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے معاملے پر مذہبی جماعت کی جانب سے نومبر 2017 میں 22 روز تک دھرنا دیا گیا جو بعدازاں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور ایک معاہدے کے بعد ختم ہوا۔دھرنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست زیرسماعت ہے جب کہ عدالت نے آبزرویشن دی تھی کہ دھرنے کے خاتمے کے لئے کئے گئے معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں اور جو معاہدہ ہوا اس کی قانونی حیثیت دیکھنی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے تھے کہ ‘زخمی میں ہوا ہوں ریاست کو کیا حق ہے میری جگہ راضی نامہ کرے ، جس پولیس کو مارا گیا کیا وہ ریاست کا حصہ نہیں، اسلام آباد پولیس کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہ دینی چاہیے، پولیس کا ازالہ نہیں کیا جاتا تو مقدمہ نہیں ختم ہونے دوں گا۔