کراچی(آن لائن) مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب محسود کے قتل کیس کو ہائی پروفائل مقدمے کا درجہ دے دیا گیا ۔سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل کیس زیرسماعت ہے جب کہ آئی جی سندھ کو ملزم راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے دس روز بھی مہلت دی گئی ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق مقدمے کے 2 گواہوں کو ‘وٹنس پروٹیکشن ایکٹ’ کے تحت سیکورٹی فراہم کی گئی ہے اور دونوں عینی شاہدین کی حفاظت کے لئے 5 پولیس اہلکار
تعینات ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گواہوں کی محفوظ اور خفیہ رہائش کا انتظام اور شناخت کی تبدیلی کے مراحل ابھی باقی ہیں جب کہ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کے تحت گواہوں کے لیے دیگر سیکورٹی اقدامات نہیں کیے گئے۔ذرائع کے مطابق وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کے تحت عینی شاہدین کو عدالت تک فول پروف سیکیورٹی میں لانا ہوتا ہے تاہم اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے باوجود وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کے نفاذ کے لئے فنڈز موجود نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا اور یکم فروری کو سماعت کے دوران آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 10 دن کی مہلت دی اور ساتھ ہی حساس اداروں کو بھی اے ڈی خواجہ کی معاونت کی ہدایت دی۔