قصور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک سینئر صحافی نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ جب ایمان فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اس وقت قصور پولیس نے ایک انیس سالہ نوجوان مدثر کو پکڑ لیا جس کا تین ماہ کا بیٹا تھا، ایمان فاطمہ سے زیادتی کے کیس میں مدثر کو
ساری رات پولیس نے اتنا مارا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں یہاں تک کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی توڑ ڈالی گئی اس تشدد سے مدثر مر گیا، اس موقع پر پولیس نے پولیس مقابلہ ظاہر کرنے کے لیے مدثر کو گولیاں ماریں اور باہر آ کر اعلان کیا کہ ملزم نے اقرار کر لیا تھا کہ اس نے ایمان فاطمہ سے زیادتی کی ہے۔ اس علاقے میں انہوں نے اب عمران پکڑ لیا ہے۔ لوگ مدثر کو معصوم ایمان فاطمہ کا قاتل سمجھ رہے تھے لوگوں کا خیال تھا کہ مدثر نے ہی اس معصوم بچی سے زیادتی کی ہے اور پھر قتل کر دیا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی، لوگوں نے مدثر کے گھر والوں کا سامان گھر سے باہر پھینک دیااور کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ تمہارے بیٹے نے ایسی غلط حرکت کی ہے، مدثر کے خاندان کی اتنی بدنامی ہوئی کہ اس کی بہنوں کے رشتے ہی ٹوٹ گئے، مدثر کا خاندان دربدر ہو گیا۔ قصور پولیس نے ایک انیس سالہ نوجوان مدثر کو پکڑ لیا جس کا تین ماہ کا بیٹا تھا، ایمان فاطمہ سے زیادتی کے کیس میں مدثر کو ساری رات پولیس نے اتنا مارا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں یہاں تک کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی توڑ ڈالی گئی اس تشدد سے مدثر مر گیا