پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) پشاور کی ایک مقامی عدالت نے نجی سکول کے پرنسپل کو بچوں کو ہراساں کرنے ، پورنو گرافی، ریپ اور غیر اخلاقی تعلقات قائم کرنے کا ملزم قرار دے دیا ۔ ملزم عطااللہ مروت کا عدالت کے روبرو اپنے جرائم سے انکار، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یاسر شبیر نے مقدمے کی اگلی سماعت 3 فروری تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے گواہان کو طلب کرلیا ۔واضح رہے کہ ملزم سکول پرنسپل عطا اللہ مروت کو 14 جولائی کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا
جب ایک طالبعلم نے اس کے خلاف تھانے میں شکایت درج کرائی تھی ۔ لڑکے نے الزام لگایا تھا کہ پرنسپل عطااللہ مروت جو کہ سکول کا مالک بھی ہے نہ صرف لڑکوں کے ساتھ غلط کاری کرتا ہے بلکہ لڑکیوں کے ساتھ بھی نازیبا حرکات کرتا اور خفیہ کیمروں کے ذریعے ان کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ پرنسپل نے اپنے سکول میں جگہ جگہ خفیہ کیمرے لگوا رکھے ہیں۔یا درہے کہ ملزم کی درخواست ضمانت پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منسوخ کرچکے ہیں جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے پرنسپل کو 8 دفعات کے تحت ملزم قرار دیا۔ ملزم کے خلاف مقدمہ خواتین کے کپڑے پھاڑنے، ریپ کرنے کیلئے سزا دینے، بچوں کا جنسی استحصال کرنے، جنسی ہراسگی، چائلڈ پورنو گرافی، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ کی خلاف ورزی، بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی تعلق قائم کرنے اور جنسی تشدد کرنے کی دفعات کے تحت قائم کیا گیا۔ملزم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے 18 سال سے کم عمر بچیوں کو نہ صرف جنسی عمل کی ترغیب دی بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا جبکہ ننھی طالبات کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ملزم پر بچوں کے علاوہ خواتین کو فون کال پر قتل کی دھمکیاں دے کر اور دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنے اور ہراساں کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 19 جولائی 2017 کو ملزم نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ سکول میں باہر سے خواتین لا کر ان کی ویڈیوز بناتا ہے کیونکہ یہ اس کا مشغلہ ہے، اس نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اس کے کمپیوٹر میں اس قسم کی 26 ویڈیوز موجود ہیں۔عوام کی جانب سے سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور ملزم کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔