قصور (مانیٹرنگ ڈیسک) زینب قتل کیس میں ڈی پی اوقصور زاہدنواز مروت نے کہا ہے کہ ملزم عمران کے بارے میں مقتولہ کے چچااور عمران کے محلے داروں نے اس کی مشکوک حرکات کے بارے میں بتایا ۔زینب قتل کیس میں ڈی پی اوقصور زاہدنواز مروت نے ملزم عمران کے بارے میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ ملزم کو پہلے تو عام شہریوں کی طرح ٹیسٹ کیلئے بلوایا گیا جس کے بعد ملزم عمران کے بارے میں مقتولہ کے چچااور عمران کے محلے داروں نے اس کی مشکوک حرکات کے بارے میں بتایا،
جس پر ملزم کو خصوصی واچ لسٹ میں شامل کیاگیا ‘ملزم عمران 19جنوری کو ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے بعد قصور سے فرارہوگیا تھا جس کے بعد ان کا شک یقین میں بدل گیا اور آخر کار ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیاگیا۔ ڈی پی اوقصور نے بتایا کہ پنجاب پولیس کیلئے ملزم کی گرفتاری ایک بڑا چیلنج تھااس چیلنج کو بخوبی نبھاکر عوام اورپولیس کے مابین ایک اچھا رشتہ قائم ہواہے ٗ انشاء اللہ قصورپولیس امن وامان کو بحال کرنے میں اپنا کردار اداکرتی رہے گی۔دریں اثناء قصور میں اغوا اور زیادتی کے بعد 7 سالہ زینب کو قتل کرنے والے ملزم عمران کی جیکٹ کے 2 بٹنوں کی مدد سے تحقیقاتی ادارے اس تک پہنچنے اور گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق زینب کے قتل کے بعد قصور شہر کی تقریباً 7سے 8 لاکھ آبادی میں سے خواتین اور بزرگ نکالنے کے بعد 60 سے 70 ہزار کے قریب افراد سے تفتیش کی گئی اور تقریباً 1100 افراد کے ڈی این اے لیے گئے۔پولیس کیلئے قاتل کا پتہ لگانا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ ملزم روپ بدل کر لوگوں کے درمیان ہی تھا اور کوئی اس پر شک نہیں کر پا رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فورنزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے ٗان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔
آخرکار پولیس زینب سمیت قصور کی 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل کے ملزم عمران کو 14 روزہ تحقیقات کے بعد گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور گذشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران گرفتاری کی تصدیق کی۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی شواہد تھے جن میں ایک چہرہ تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی دینے والے ملزم کی داڑھی تھی جبکہ اس نے ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی تھی، جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آرہا تھا ٗجو اس کا حقیقی رنگ نہیں تھا۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق چھاپے کے دوران تحقیقاتی اداروں کو عمران کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے پولیس ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔رپورٹ کے مطابق جب ملزم کا ڈی این اے مکمل طور پر میچ ہوگیا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔ دوسری جانب یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم عمران نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔
یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔جبکہ قصور کی سات سالہ زینب کے والد امین انصاری نے کہا ہے کہ ملزم ان کی بیٹی کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گیا کہ وہ اسے اس کے والدین سے ملوانے لے جارہا ہے۔ایک انٹرویو میں زینب کے والد نے کہا کہ ملزم عمران کو جب معلوم ہوا کہ زینب کے والدین ملک میں نہیں ہیں تو اس نے اس گھناؤنے فعل کو انجام دینے کیلئے موقع کا فائدہ اٹھایا۔امین انصاری نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو یہ نصیحت کررکھی ہے کہ وہ کسی اجنبی شخص کے ساتھ باہر نہ جائیں۔زینب کے والد نے کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی ٗقانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور فارنزک لیب کی مشترکہ کوششوں کو سراہا اور والدین کو پیغام دیا کہ وہ اپنے بچوں کا خیال کریں تاکہ وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا شکار نہ ہوں۔