اسلام آباد(اے این این ) سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ہمارے خلاف ایک ریفرنس کے بعد دوسرا ریفرنس دائر کردیا جاتا ہے لیکن کسی جج میں جرات نہیں کہ وہ ڈکٹیٹر کو وطن واپس لے آئے،میرے کیس اور دوسروں کے کیسز میں فرق صرف لاڈلے کا ہے،نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں ،جب معاملہ ختم ہونے کی طرف جاتا ہے تو جان بوجھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ،نیب والے قومی خزانے کے خرچ پر بیرون ملک جاتے ہیں اور سیر سپاٹے کرکے واپس آجاتے ہیں،
شہباز شریف اور میرے درمیان اختلافات کے شوشے سابق صدر غلام اسحق کے دور سے چھوڑے جا رہے ہیں ۔اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ جب میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملتا تو معاملے کو ختم کردینا چاہئے تھا لیکن جب معاملہ ختم ہونے کی طرف جاتا ہے تو اسے جان بوجھ کر لٹکا دیا جاتا ہے، آئے روز میرے اور شہباز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کئے جارہے ہیں، نیب والے قومی خزانے کے خرچ پر بیرون ملک جاتے ہیں اور سیر سپاٹے کرکے واپس آجاتے ہیں، جو ضمنی ریفرنس لائے جارہے ہیں ان کا کیا مقصد ہے، اب مزید کیا کرنا چاہتے ہیں ججز کو کیس اختتام کو پہنچانا چاہئے لیکن اب جج بھی خفت سے بچنا چاہتے ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ججز احتساب عدالت کے سپروائزر بن کر بیٹھ گئے ہیں، ہدایت بھی دی جارہی ہے اس کو بھی لے آ اس کو بھی لے آ، کسی میں جرات نہیں کہ ڈکٹیٹر کو پاکستان واپس بلالے، ویسے تو عدالتوں میں کئی کئی سال تک فیصلے نہیں آتے اور میرا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا کہا گیا، غریبوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کیس میں نوازشریف لکھ دیا کریں فیصلے جلد آئیں گے کیوں کہ ججز کو مجھ سے خاص محبت ہے۔نوازشریف کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی اختیارات سے تجاوز، کرپشن، سرکاری عہدے کا ناجائز استعمال یا اپنے منصب کا غلط استعمال نہیں کیا،
میرا قصور یہ ہے کہ جب وزیراعظم تھا تو اسٹاک ایکسچینج میں 19 ہزار سے 53 ہزار تک اضافہ ہوا، سڑکیں بنائیں، دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا، لیکن مجھے شاباش دینے کے بجائے کیسز بنادیئے گئے اور پھر جو فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا اسے کسی نے قبول نہیں کیا کیوں کہ میرے کیس اور دیگر کیسز میں فرق صرف لاڈلے کا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ فیس سیونگ کیلئے احتساب عدالت سے سزا دلوائی جا رہی ہے، واٹس اپ کال سے لیکر اب تک انصاف نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا عدالتی فیصلے سے ملک کی ساری ترقی رک گئی۔انھوں نے کہا کہ ہم اقتصادی شعبے میں بھارت سے آگے جا رہے تھے لیکن ایسے فیصلے انتشار کا باعث بنتے ہیں۔شہبازشریف سے اختلاف کے حوالے سے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے اور شہباز شریف کو الگ کرنے کا شوشہ اسحاق خان کے دور سے شروع ہوا، پرویزمشرف کے زمانے میں بھی یہ کوشش کی گئی لیکن کسی کو کامیابی نہیں ملی اب اس خواہش کی تکمیل کو چھوڑ دینا چاہئے۔