قصور (مانیٹرنگ ڈیسک) قصور شہر میں سات سالہ بچی زینب سے زیادتی اور قتل سے قبل اس شہر میں گیارہ بچیوں کے ساتھ یہ ظلم ہو چکا ہے، ان کو بھی اسی طرح قتل کر دیا گیا ان میں سے ایک بچی زندہ بچی ہے، ان بچیوں میں ایک پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھی جسے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے اس پانچ سالہ بچی سے زیادتی اور قتل کے الزام میں مدثر نامی ایک نوجوان کو گرفتار کیا تھا،
بعد ازاں اسے فروری 2017ء میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کا موقف تھا کہ مدثر نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جس پر فائرنگ کی زد میں آ کر مارا گیا، بی بی سی کے مطابق زینب قتل کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایمان فاطمہ کو بھی اسی شخص نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسی درندہ نما انسان نے زینب کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک ایمان فاطمہ کے قاتل کے بارے میں پولیس یہی کہتی رہی کہ وہ مارا جا چکا ہے مگر ڈی این اے رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص ابھی زندہ ہے اور مدثر نامی نوجوان بے قصور تھا، اسے پولیس نے مار دیا اور ایمان فاطمہ کے گھر والوں کو کہا گیا کہ ان کی بچی کاقاتل مارا گیا ہے۔ ایمان فاطمہ کے خاندان والوں کا اب موقف سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کا قاتل تاحال آزاد ہے جبکہ مارے گئے مدثر نامی نوجوان کو وہ بے گناہ سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایمان فاطمہ اپنے گھر کے باہر پانچ سالہ کزن عدیل کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اسی دوران اس درندے نے اسے اغواء کر لیا، ایمان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ایمان فاطمہ کے اس پانچ سالہ کزن عدیل نے ہی اغوا کار کی شناخت کی، 21 سالہ مدثر دو سال قبل اپنے خاندان کے ساتھ قصور منتقل ہوا تھا اور یہاں وہ ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، مدثر کے گھر والوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے مدثر کو مار ڈالا اور کہا کہ یہ قاتل تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ مدثر قاتل نہیں ہے مگر پولیس اصل مجرم پکڑنے میں ناکام ہو گئی تھی اسی لیے اسے مارنے کے بعد قاتل ثابت کر دیا۔