کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) شہر قائد میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ کی ماورائے عدالت ہلاکت میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار اپنا موبائل فون نمبر بند کردیاہے جبکہ راؤانوار سمیت انکاؤنٹرٹیم کے تمام ممبران روپوش ہوگئے ہیں ،راؤ انوار اور ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ڈسٹرکٹ ملیر میں تعینات راؤ انوار کے 16 اہم دست راستوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق راؤ انوار اپنے ہی محکمے کے خلاف ڈٹ گئے اور روپوشی اختیار کرلی۔
جعلی مقابلے کی تفتیشی ٹیم نے رابطے کی بہت کوشش کی لیکن راؤ انوار ہاتھ نہ آئے۔ ڈی آئی جی ایسٹ نے بلاوا بھیجا مگر راؤ انوار نے جواب دینے کی بھی زحمت نہ کی۔ تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی نے ایک بار پھر راؤ انوار کو پیرکے روز طلب کیا تھا تاہم وہ پیرکو بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی کا اتوار کی شب11 بجے ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں اجلاس ہوا ،جس میں پیرکی صبح ساڑھے دس بجے سینٹرل پولیس آفس میں ایس ایس پی راؤ انوار کو اپنی ٹیم کے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا لیکن راؤ انوار نے آئی جی سندھ کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا اور پیش نہیں ہوئے جبکہ ہیومن رائٹس ٹیم اور اعلی پولیس افسران سی پی او میں ان کے منتظر رہے۔کمیٹی کے مطابق راؤ انوار کو ثابت کرنا ہوگا کہ نقیب اللہ دہشت گرد تھا، مقدمے میں راؤ انوار کی بطور ملزم نامزدگی کا فیصلہ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے کرنا ہے، تحقیقاتی کمیٹی کے رکن سلطان خواجہ کے مطابق راؤ انوار کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے گریز کررہے ہیں۔ دوسری طرف تحقیقاتی کمیٹی نے جعلی مقابلے کے شواہد ملنے پر راؤ انوار اور مقابلے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔علاوہ ازیں پولیس نے راؤ انوار کے گھر چھاپہ مارنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ رات پولیس راؤ انوار کے گھر طلبی کا نوٹس چسپاں کرنے گئی تھی۔پولیس ذرائع کے مطابق تاحال راؤ انوار کی گرفتاری کے احکامات جاری نہیں کئے گئے جب کہ وہ سیکیورٹی خدشات کے باعث ملیر کینٹ میں رہائش پذیر ہیں۔
دوسری جانب ایس ایس پی راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کسی بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گا ،جہاں انصاف کی امیدہی نہیں وہاں جاکر کیا کروں، میرے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے اورمیڈیا پر بھر پور پروپیگنڈا کیاجارہا ہے۔ مقدمہ ہوا تو عدالت کا سامنا کروں گا۔انہوں نے کہاکہ کچھ روزپہلے شارع فیصل مقابلے پر آئی جی نے انعام کا اعلان کیاتھا، بعد میں شارع فیصل مقابلہ غلط ثابت ہوا تو کیا آئی جی ملوث ہیں؟۔تحقیقاتی کمیٹی کے رکن ثنا اللہ عباسی اور سلطان خواجہ پر اعتماد نہیں، 4 مرتبہ رابطے کے باوجود انکوائری کمیٹی میں پیش ہونے کے لیے نہیں بلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس مقابلہ ایس ایچ او نے کیا اور تحقیقات میرے خلاف ہورہی ہے، حقائق جاننے کے بجائے بدنام کیا جارہا ہے جب کہ ہرمقابلے کے بعد ذمہ داری اس لیے قبول کی تاکہ پولیس کا مورال بڑھے۔سابق ایس ایس پی ملیرنے کہاکہ وہ آئی جی سندھ کے دفتر میں پیش ہونے سے متعلق غور کریں گے۔ڈسٹرکٹ ملیر میں تعینات راؤ انوار کے 16 اہم دست راستوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیاہے۔ ایس پی ڈاکٹرنجیب، ایس پی افتخار لودھی اور ایس پی سیف اللہ سمیت دو ڈی ایس پیز اور دس ایس ایچ اوز ہٹائے جانے والوں میں شامل ہیں۔