بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عہدے سے برطرفی کے بعد راؤ انوار بھی میدان میں آگئے ،تحقیقاتی کمیٹی کے رکن سلطان خواجہ سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

datetime 20  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(اے این این ) کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر را ؤانوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں کپڑوں کے تاجر نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو قتل کرنے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا۔ بے

گناہ نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف شہریوں کے شدید احتجاج پر را ؤانوار کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے گناہ اور پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا۔تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی نے را ؤانوار کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جس پر کارروائی کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی ملیر را انوار کو عہدے سے ہٹاکر ایس ایس پی عدیل چانڈیو کو ملیر کا چارج دے دیا ہے۔آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر را انوار کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔دوسری طرف ایس ایس پی را انوار نے کہا کہ نقیب اللہ کی ہلاکت پر بنائی جانیوالی تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرتا ہوں اور ایسی کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتا جس میں میرے مخالفین کو شامل کیا گیا ہو، کئی گھنٹے تک میری پولیس پارٹی کو حبس بیجا میں رکھا گیا اور میرے خلاف بیان دینے پر اکسایا گیا، میں تو مقابلے کی اطلاع ملنے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچا تھا اور اس وقت تک 4 دہشتگرد مارے جاچکے تھے۔ایس ایس پی ملیر را انوار کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ کراچی میں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر کپڑے کی دکان میں 70 یا 80 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری

کرنا چاہتا تھا۔ یہ پیسے کہاں سے آئے جبکہ رشتے دار کہتے ہیں کہ وہ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں آخر کتنی تنخواہ ملتی تھی جس میں سے وہ فیملی کو بھی دیتا تھا اور جمع بھی کرتا تھا؟
واضح رہے کہ ایس ایس پی ملیر را انوار نے اس نوجوان کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔تاہم سوشل میڈیا پر نقیب اللہ محسود کے قتل پر بحث شروع ہو گئی۔ ان کے قریبی

ساتھیوں کا دعوی ہے کہ بظاہر نقیب اللہ محسود کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا اور وہ ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا جس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔۔اس کے علاوہ پاکستان کے چیف جسٹس نے کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…