کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں انتظار قتل کیس کے معاملے پر سنسنی خیز حقائق حاصل کرلئے گئے ہیں۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق انتظار قتل میں جس پستول سے فائرنگ کی گئی وہ ایس ایس پی مقدس حیدر کا تھا ۔انتظار کی موت ایس ایس پی مقدس حیدر کے پستول سے چلنے والی گولی گردن میں لگنے سے ہوئی۔ ایس ایس پی مقدس حیدر کا پستول سپاہی بلال کے پاس تھا جو ایس ایس پی کا خاص دست راست مانا جاتا تھا۔
ایس ایس پی کے پستول سے فائرنگ ہوئی ۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق دیگر ملزمان کی طرح قانون کے مطابق ایس ایس پی بھی ملزم بنتا ہے ۔ایس ایس پی نے سپاہی بلال کو کار بھی دے رکھی تھی۔ اینٹی کار لفٹنگ سیل کا کنگ مانا جاتا تھا۔ ایس ایس پی مقدس حیدر کے ٹرانسفر کی بڑی وجہ سپاہی بلال بنا جو 2011 میں پولیس کا حصہ بنا۔ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں کی جانب سے انتظار کی گاڑی پر فائرنگ باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ انداز میں کی گئی۔ جس وقت انتظار کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اس وقت وہاں پر انسپکٹر مسعود حیدر بھی موجود تھا۔ مسعود حیدر کا نام مقدمہ میں ڈالا ہی نہیں گیا ہے۔ذرائع کے مطابق مسعود حیدر اے سی ایل سی پولیس کا ایڈمن انچارج ہے۔ انتظار کی گاڑی پر جب فائرنگ کی گئی تو سب سے پہلے انسپکٹر طارق رحیم نے اپنے پستول سے ہوائی فائرنگ کی۔انسپکٹر مسعود حیدر اور انسپکٹر طارق رحیم اپنی پرائیویٹ کار میں موقع سے فرار ہوگئے تھے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ انسپکٹر طارق رحیم نے عبوری ضمانت کرالی ہے۔ طارق رحیم کے پاس ایک سے زائد پسٹل ہیں۔طارق رحیم نے خول میچ کرنے کے لئے وہ پستول تفتیشی ٹیم کو دیا ہے جو اس وقت اس کے پاس تھا ہی نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس بااثر ایس ایس پی کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے جس سے تفتیش میں گڑبڑ کا خدشہ ہے۔ انسپکٹر طارق رحیم انسپکٹر مسعود حیدر اور کیس کا تفتیشی افسر ایک ہی علاقے اعظم بستی کے رہائشی ہیں اور دوست ہیں۔ پولیس اہلکاروں کی آپس کی دوستیاں تفتیش پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ اے سی ایل سی پولیس میں بھی اعظم بستی کے اہلکاروں کا راج تھا۔ ذرائع کے مطابق تفتیشی افسر نعیم اعوان نے گرفتار انسپکٹرز کو وی آئی پی پروٹوکول دے رکھا ہے۔ سپاہی لاک اپ میں اے سی والے کمرے میں انجوائے کرہے ہیں۔ اہلکار اگر میڈیا آئے تو کہے دیتے ہیں تفتیش کے لئے رکھا ہے۔ ملزمان پولیس اہلکار ہیں موثر تفتیش نہیں ہو رہی ہے۔