لاہور (اے این این ) لاہور ہائی کورٹ نے علامہ طاہر القادری کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کو لاہور کے مال روڈ پر جلسے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ رات 12بجے اجتماع ختم کرناہوگا، مال روڈ اور دھرنے کے مقام سے ملحقہ سڑکوں کو رات 12 بجے کے بعد ٹریفک اور آمدورفت کے لیے کھول دیا جائے،میڈیا 12بجے کے بعد کوریج نہ کرے۔بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس شاہد جمیل خان
اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مال روڈ کے تاجروں اور نامور وکیل اے کے ڈوگر کی جانب سے دائر کی گئی احتجاج روکنے کی درخواست کی سماعت کی۔سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے صوبائی حکومت کی جانب سے دھرنے اور احتجاج سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر جسٹس شاہد جمیل نے استفسار کیا کہ ہوم سیکریٹری عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے، ہوم سیکریٹری ذمے دار ہیں اور انہیں عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے سوال کیا کہ ‘آپ نے دھرنا روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ دھرنے کیباعث ہم عدالت میں کیسے پہنچے؟’۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ دھرنا انتظامیہ کو دھرنے سے ہونے والے مسائل اور سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا ہے۔عدالت نے متحدہ اپوزیشن کے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ دھرنا کب تک جاری رہے گا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی تک یہی فیصلہ ہے کہ صرف آج کے روز کے لیے دھرنا دیا جارہا ہے’۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، اگر ایسا ہی حکومتی رویہ رہا تو احتجاج کا دائرہ بڑھ سکتا ہے۔عدالت نے کہا کہ ان درخواستوں کا تعلق آپ کی اس بات سے نہیں ہے بلکہ ان کے
حقوق اہم ہیں جو اسکولوں اور ہسپتالوں میں نہیں پہنچ پا رہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے بنیادی حقوق کا خیال ہونا چاہیے، جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ عام آدمی کے حقوق سلب ہوں۔عدالت نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے خط سے لگتا ہے کہ انہوں نے دھرنا روکنے کی بجائے اجازت دی ہے۔درخواست گزار اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات ڈاکٹر طاہر القادری نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے
استعفے تک دھرنے کا کہا اور اب بات استعفوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومت خوفزدہ ہے کہ کہیں مزاحمت پر خون نہ بہہ جائے، اگر حکومت قانون پر عمل نہیں کروا سکتی تو اسے حکومت کرنیکا حق نہیں۔درخواست گزار نے کہا کہ مال روڈ کو بند کرنے سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہے، واٹر کینن، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے حکومت دھرنا روک سکتی ہے۔درخواست گزار ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر
نے کہا کہ پیمرا میڈیا ہاؤسز کو دھرنوں کی کوریج کرنے سے روک دے تو احتجاج خود ختم ہوجائے گا۔درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ 2014 میں آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ کیا گیا، اس دھرنے میں بھی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو دھرنا دینا ہی ہے تو باغ جناح یا ایسی کسی جگہ پر دیں، جس سے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں۔عدالت
نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مال روڈ پر دھرنا روکنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں مختصر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ مال روڈ پر جلسہ رات 12 بجے تک ختم کر دیا جائے۔عدالت عالیہ کا مزید کہنا تھا کہ رات 12 بجے کے بعد میڈیا جلسے کی کوریج نہ کرے۔عدالت نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ رات12بجے کے بعد مال روڈ اور دھرنے کے مقام سے ملحقہ سڑکوں کو ٹریفک اور آمدورفت کے لیے کھول دیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزار نے عدالت سے عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔اس حوالے سے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ایک بیٹھک بھی ہوئی
جس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے 17 جنوری سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاج میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں جن کے قائدین آج احتجاج میں بھی شریک ہوں گے۔