زینب جیسی ہزاروں بچیاں کیسے بچیں گی؟ پولیس کے ہاتھ سے رائفل بھی لینا ہوگی،ہمارے سیاستدان اس خوفناک ایشو پر کیا کر رہے ہیں؟ جاوید چودھری کا تجزیہ

11  جنوری‬‮  2018

ارجنٹائن میں 8 اکتوبر 2016ء کو ریپ کا ایک واقعہ پیش آیا‘ 16 سال کی ایک لڑکی لوسیا پیریز سے زیادتی کی گئی‘ یہ لڑکی زیادتی کے دوران ہلاک ہو گئی‘ ارجنٹائن کی خواتین نے اس واقعے پر دلچسپ انداز سے احتجاج کیا‘ پورے ملک میں ہزاروں خواتین باہر آگئیں‘ خواتین نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا اور یہ سڑکوں پر آہستہ آہستہ مارچ کرتی رہیں‘ اس احتجاج نے پوری دنیا کی نظریں اپنی جانب مبذول کرا لیں‘  حکومت نے نئے قوانین پاس کئے

اور ارجنٹائن میں اب صورت حال ماضی سے بالکل مختلف ہے‘ خواتین وحضرات قصور کی بے قصور بچی زینب کے واقعے نے حقیقتاً پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ چیف جسٹس سے لے کر عام ریڑھی والے تک ملک کا کوئی ایسا شہری نہیں جو اس واقعے پر اداس نہ ہو اور جو ملک کو زینب جیسی بچیوں کیلئے محفوظ نہ بنانا چاہتا ہو چنانچہ یہ ایک سنہری موقع ہے جب حکومت دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی طرح بچوں کے تحفظ کیلئے بھی ایک نیشنل پالیسی بنا سکتی ہے‘ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے‘ مختلف سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھائے اور چائلڈ پروٹیکشن پر ایک جامع پالیسی بنادے‘ زینب جیسی ہزاروں بچیاں بچ جائیں گی‘ ہمیں اس پالیسی کے ساتھ ساتھ تین دوسرے شعبوں کے بارے میں بھی فارمولہ بنانا ہوگا‘ اس واقعے نے سوسائٹی‘ پولیس اور سیاستدان تینوں کو ننگا کر دیا‘ ہمارے معاشرے کو آج تک احتجاج کا طریقہ نہیں آ سکا‘ لوگ قصور میں تھانوں پر حملے کر رہے ہیں‘ یہ ہسپتال کے دروازے توڑ رہے ہیں‘ ہسپتال بند کر دیا گیا ہے‘ یہ لوگوں کی گاڑیاں جلا رہے ہیں اور سڑکیں بند کر رہے ہیں‘ ہمیں عوام کو احتجاج کا طریقہ بھی سکھانا ہوگا‘ پولیس کو آج تک ہجوم سے نبٹنے کا طریقہ نہیں آ سکا‘ یہ احتجاج پر سیدھی گولی چلا دیتے ہیں‘ ہمیں پولیس کے ہاتھ سے رائفل بھی لینا ہوگی اور ہمارے سیاستدان ایسے خوفناک ایشوز پر بھی سیاست کر رہے ہیں‘ سیاستدانوں کوبھی اپنی باؤنڈریز کا تعین کرنا ہوگا ورنہ زینب کی قربانی رائیگاں ہو جائے گی‘ ہم ماضی کے واقعات کی طرح اس جلے ہوئے زخم کو بھی برف کی ٹکور کرکے بھول جائیں گے۔کیا اپوزیشن اس واقعے کو اپنے لئے اپرچونٹی سمجھ رہی ہے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے اور اس نیشنل ایشو پر کیا نیشنل پالیسی بننی چاہیے ہم یہ فیصلہ بھی کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…