پچھلے سال ایران کے شہر پارس آباد میں سات سال کی ایک بچی اتینہ زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی ‘ بچی کا والد کپڑے کا تاجر تھا‘ بچی والد کی دکان سے باہر نکلی‘ پانی پینے کیلئے والد کے ایک دوست کی دکان پر گئی اور غائب ہو گئی‘ والد بچی کی گم شدگی کو اغواء کا واقعہ سمجھتا رہا لیکن جب بازار کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکالی گئی تو بچی اسماعیل جعفر زادے کی دکان میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی‘ پولیس آئی‘ تفتیش ہوئی اور بچی کی لاش دکان کی پارکنگ لاٹ سے مل گئی‘
ملک میں احتجاج شروع ہو گیا‘ یہ واقعہ 19 جون کو پیش آیا‘ 20 جون کو مجرم گرفتار ہوا‘ عدالت نے اسے 11 ستمبر کو سزا سنائی اور حکومت نے 20 ستمبر کو مجرم کو ہزاروں لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی‘ سزا کا یہ سارا عمل تین ماہ میں مکمل ہوا اور مجرم کو عبرت کی نشانی بھی بنا دیا گیا‘ یہ کہانی قصور کی سات سالہ بچی زینب سے ملتی جلتی ہے‘ زینب چار جنوری کو قرآن مجید پڑھنے کیلئے خالہ کے گھر کیلئے نکلی اور راستے میں غائب ہو گئی‘ واقعے کے دوسرے دن پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج دے دی گئی‘ پولیس چار دن تک بچی تک نہ پہنچ سکی‘ کل بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی‘ بچی کو قتل سے پہلے کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ بچی کے والدین عمرے کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے‘ آج اس واقعے کے بعد قصور میں ہنگامے پھوٹ پڑے‘ مشتعل ہجوم نے ڈی پی او آفس پر حملہ کر دیا‘ پولیس نے گولی چلا دی‘ دو لوگ جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا‘ یہ قصور میں اس نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے‘ شہر سے اس سے قبل گیارہ بچیاں اغواء ہو چکی ہیں ‘ ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں‘ ان میں سے دس قتل ہو چکی ہیں صرف ایک بچی کائنات کی جان بچ گئی لیکن یہ بھی ذہنی طور پر معذور ہو چکی ہے‘ مرحوم بچیوں کے جسم سے ایک ہی شخص کے ڈی این اے مل رہے ہیں لیکن پولیس ڈیڑھ سال میں مجرم تک نہیں پہنچ سکی۔ ہم اگر آج کے ہنگاموں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے ہمارے لوگوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ تھانے پر حملے‘
پتھراؤ اور گاڑیوں کو آگ لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ‘ احتجاج کے اس سے بہتر طریقے بھی موجود ہیں اور پولیس کو بھی یہ اندازہ نہیں کہ ایسے حالات میں ہجوم کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے‘ یہ براہ راست گولی چلا دیتی ہے‘ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب آج عمران خان نے دیا، پولیس کیسے بہتر ہو سکتی ہے‘ زینب جیسی بچیوں کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے‘ والدین کیا کر سکتے ہیں‘ استاد اور معاشرہ کیا کر سکتا ہے اور اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو پولیس مجرم تک کیسے پہنچ سکتی ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہو گا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔