کو ئٹہ (آئی این پی )تحریک عدم اعتماد کوناکام بنانے کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری کو 65کے ایوان میں سے 33اراکین کی حمایت درکار ہوگی ۔اس طرح اسپیکراسمبلی راحیلہ حمیدخان درانی اوروزیراعلی نواب ثنا اللہ زہری کے علاوہ اراکین کی تعداد63 ہوئی۔وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ ن کی اتحادی ق لیگ کے رکن اسمبلی میرعبدالقدوس بزنجو اور مجلس وحدت مسلمین کے سیدآغامحمدرضا نے دیگربارہ اراکین کی
جانب سے جمع کرائی تھی۔اس طرح تحریک عدم اعتماد جمع کرانیوالے اراکین کی تعداد14بنتی ہے،جس کے بعد تین ن لیگی وزرا اور دو مشیروں کے استعفوں سے ن لیگ کی اپنی صفوں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔تحریک کے محرک عبدالقدوس بزنجو کادعوی ہے کہ انہیں 22ن لیگی اراکین میں سے 18کی حمایت حاصل ہے، تاہم موجودہ زمینی صورتحال اور قرائن سے پتا چلتاہے کہ ن لیگیوں میں سے نصف سے زائد وزیراعلی کاساتھ چھوڑ چکے ہیں جبکہ ان کاساتھ دینے والوں میں حزب اختلاف میں شامل جے یو آئی ف کیآٹھ، مسلم لیگ ق کے پانچ، بی این پی مینگل کے دو اراکین کے علاوہ بی این پی عوامی، اے این پی اور مجلس وحدت مسلمین کے ایک، ایک رکن شامل ہیں۔ایک آزاد رکن اور نیشنل پارٹی کے ایک رکن کیساتھ یہ تعداد 32 تک جا پہنچتی ہے، جمعیت کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ ان کے چار اراکین پہلے ہی تحریک عدم اعتماد جمع کرانیوالوں میں شامل تھے اس لئے لگتا یہی ہے کہ جمعیت کیتمام اراکین وزیراعلی کیخلاف تحریک کاساتھ دیں گے۔اس صورتحال کے بعد اگر وزیراعلی کی پوزیشن کو دیکھاجائے تو ان کا دعوی کہ انہیں اب بھی 40 سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے، درست نہیں لگتا جبکہ ان کے حمایتی ن لیگی اراکین کی تعداد 10 رہ گئی ہے، اس کے باوجود اتحادی جماعتوں پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کو ملا کر انہیں کل 33 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ایک یا دو مزید اراکین کے ادھر یا ادھر ہونے سے صورتحال یکسر بدل سکتی ہے لگتا یہی ہے کہ مقررہ تعداد میں اراکین کی حمایت بہرحال وزیراعلی کیلئے ایک چیلنجنگ ٹاسک ہے۔