اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ امریکہ کو اتحادی کہنے سے پہلے لفظ اتحادی کے مطلب کو سمجھنا ہو گا،ہمیں امریکہ کے ساتھ اپنے تعلق کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے، امریکی امداد کے بنا بھی ہم زندہ رہ سکتے ہیں، بھارت اور امریکہ سی پیک کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنا رہے ہیں،ملک میں دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کر دی ہیں،اس وقت امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے ، اس خطے میں انکے مفادات ہیں،
ہم محدود وسائل کے ساتھ اتنی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں تو اتنی جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ وسائل کے باوجود امریکہ زمین پر پڑی سوئی بھی دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو حقانی نیٹ ورک اور ٹی ٹی پی کے چند ہزار لوگوں کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکا،افغانستان سے بندے آ کر یہاں دھماکے کر کے واپس چلے جاتے ہیں انکے خلاف امریکی فورسز کوئی کارروائی نہیں کرتیں,،امریکہ نے دہشت گردی کا 3,2دہائیوں سے جو جلسہ یہاں چھوڑا ہوا ہے اسے سمیٹنے میں ہمیں وقت لگے گا، ہم افغان مہاجرین کو باوقار طریقے سے واپس بھیجنا چاہتے ہیں،افغان مہاجرین کی ہم نے 20سال خدمت کی اب انصار کے کردار کی نفی نہیں کریں گے،ہمیں عزت آبرو سے رہنا ہے تو امریکہ کی طرف سے دباؤ بھی برداشت کرنا ہو گا، مشرف نے پاکستان سے لوگ اٹھا کر امریکہ کو دیئے اور بدلے میں ڈالرز لئے اور اس بات کو مشرف فخریہ بیان کرتا ہے،اس بار ہمارا اعتماد کا لیول پچھلی بار سے زیادہ ہوا ،ہم امریکہ کے ساتھ وفاداری کر رہے ہیں اور تعلق نبھا رہے ہیں، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کو ہم نے جہاد کا رنگ دے دیا، سوویت یونین ہمارا دشمن نہیں تھا، افغان جنگ اور نائن الیون کے بعد بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا ان کو فائدہ ہوا اور بدلے میں ہم نے اپنے ذمے تباہی ڈالی، مقبوضہ بیت المقدس پر امریکہ کے کیا مفادات تھے جو ساری دنیا ایک طرف اور امریکہ ایک طرف ہو کر بھی اپنا سفارتخانہ وہاں شفٹ کرنے میں بضد ہے،میرے بیان کی
اہمیت عہدے کے ساتھ ہے،میرے اور نواز شریف کے خیالات میں مماثلت ہونا فطری بات ہے، لیڈر شپ کی طرف سے جب تک منع نہیں کیا جاتا میرے ٹوئٹس حکومت کا بیان ہی ہیں، میری کسی امریکی عہدیدار سے ملاقات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے، مجھے کوئی حق نہیں کہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کروں، جو کچھ میرے پاس ہے یہ اس قوم اور خدا کی دین ہے، ہم نے امریکیوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ہماری ایئر اسپیس کیوں استعمال کر رہے ہیں، خدا کا فضل ہے کہ سفارتی طور پر پاکستان تنہا نہیں۔
وہ جمعرات کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ میری ذاتی تو کوئی اوقات نہیں ہے میری تو ایک عوامی نمائندے کی اور وزیر خارجہ کی اوقات ہے، میری ذاتی حیثیت میں کسی بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، میرے بیان کی اہمیت میرے عہدے کے ساتھ ہی ہے، لیڈر شپ کی طرف سے جب تک منع نہیں کیا جاتا میرے ٹوئٹس حکومت کا بیان ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف سیاست میں 29سال سے میرے قائد ہیں، میرے اور ان کے خیالات میں مماثلت ہونا فطری بات ہے،
انفرادی بیانات اور اداروں کے ردعمل میں فرق رکھیں، پارلیمنٹ سے رسپانس عوام کی خواہشات کا عکاس ہونا چاہیے، پارلیمنٹ کی قرار داد عوام کی خواہشات کے قریب ہونی چاہئیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے ایسا بیان آنا سیاسی مسئلہ نہیں قومی مسئلہ ہے اور ہمارے وقار کامسئلہ ہے، امریکی صدر کی 21 اگست کی تقریر کے بعد سے بیانات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو سوچے سمجھے طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مک ماسٹر سے ملا ہوں، اس نے میرے منہ پر مجھ سے کہا کہ آپ وعدے پورے نہیں کرتے،
پچھلی ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ پہ اعتماد ختم ہو گیا ہے اور اس ملاقات میں انہوں نے کہا کہ آپ پہ اعتماد کا لیول کم ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بار اعتماد کا لیول پچھلی بار سے زیادہ ہوا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ وفاداری کر رہے ہیں، اور تعلق نبھا رہے ہیں، جو اسلحہ اور ٹیکنالوجی امریکہ کے پاس ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود ہم نے دہشت گردی کے خلاف بے انتہاء کامیابیاں حاصل کیں، کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ سوات سے طالبان کا قبضہ چھڑایا جا سکے گا،
ایک وقت تھا جب لوگ کہتے تھے کہ طالبان اسلام آباد سے 60کلو میٹر دور رہ گئے ہیں، اب دیکھیں کہ طالبان کہاں ہیں، ہم محدود وسائل کے ساتھ اتنی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں تو اتنی جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ وسائل کے باوجود امریکہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کو ہم نے جہاد کا رنگ دے دیا، سوویت یونین ہمارا دشمن نہیں تھا، امریکہ افغانستان میں اتحادیوں کے ساتھ پرفارم کیوں نہیں کر سکا، خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ابھی تک 9ہزار ٹن افیون کیوں پیدا ہو رہی ہے، ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنے جوان بریگیڈیئر،کرنل اور لیفٹیننٹس شہید ہوتے دیکھے ہیں، افغان جنگ میں بھی اور نائن الیون کے بعد بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا ان کو فائدہ ہوا اور بدلے میں ہم نے اپنے ذمے تباہی ڈالی، اب امریکہ ہمارا اتحادی رہا ہے نہ دوست رہا ہے بلکہ ہمیں امریکہ کے ساتھ اپنے تعلق کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے، اتحادی اور دوست اپنے دوستوں کے بارے میں قطعاً ایسی زبان استعمال نہیں کرتے، امریکہ کو اتحادی کہنے سے پہلے لفظ اتحادی کے مطلب کو سمجھنا ہو گا۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد پہلی بار بند کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ وہ کئی بار ایسا کر چکا ہے، امریکی امداد کے بنا بھی ہم زندہ رہ سکتے ہیں،امریکہ ہمارے ایف 16طیاروں کی رقم بھی کھا گیا، امریکہ نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ چھوڑا ہے، مقبوضہ بیت المقدس پر امریکہ کے کیا مفادات تھے جو ساری دنیا ایک طرف اور امریکہ ایک طرف ہو کر بھی بضد ہے اپنا سفارتخانہ وہاں شفٹ کرنے میں،امریکہ کو کیا جلدی تھی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کی۔
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے اور اس خطے میں ان کے مفادات ہیں،ہم امریکی امداد 200ملین ڈالرز کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، ہمارا چین کے ساتھ جذباتی لگاؤ اور عوامی سطح پر رابطہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 1800کلومیٹر موٹروے بن رہی ہیں، سی پیک کے مغربی دنیا تک جانے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، بھارت اور امریکہ سی پیک کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنا رہے ہیں،سپرپاور چاند اور مریخ پر پہنچ گئی ہے، امریکہ زمین پر پڑی سوئی بھی دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو حقانی نیٹ ورک اور ٹی ٹی پی کے چند ہزار لوگوں کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکا،
افغانستان سے بندے آ کر یہاں دھماکے کر کے واپس چلے جاتے ہیں ان کے خلاف بھی امریکی فورسز کوئی کارروائی نہیں کرتیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کر دی ہیں، یہاں اب کوئی پناہ گاہ باقی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردی کا 3,2دہائیوں سے جو جلسہ یہاں چھوڑا ہوا ہے اسے سمیٹنے میں ہمیں وقت لگے گا، یہ ملبہ ہمارے گلی محلوں تک پھیلا ہوا ہے، اس علاقے میں عدم استحکام امریکہ اور بھارت کے مفاد میں ہے،
ہم افغان مہاجرین کو باوقار طریقے سے واپس بھیجنا چاہتے ہیں، ہمیں یو این ایچ سی آر والے کیا دیتے ہیں، افغان مہاجرین کی ہم نے 20سال خدمت کی اب انصار کے کردار کی نفی نہیں کریں گے۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ پچھلے ایک دو سال میں ڈرون حملوں میں واضح کمی آئی ہے، پاکستان میں امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں میں نمایاں کمی کا مطلب ہے کہ یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں، ہمیں عزت آبرو سے رہنا ہے تو امریکہ کی طرف سے دباؤ بھی برداشت کرنا ہو گا،امریکی قوم میں اچھے اور ملنسار لوگ بھی موجود ہیں، ہمارے اوپر ہمارے شہیدوں کا قرض بھی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ابھی بھی ہمارا کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 9ارب ڈالر دینے ہیں، پرویز مشرف نے ہمارے فضائی اڈے، سڑکیں فری میں امریکہ کو دے دیئے، مشرف نے پاکستان سے لوگ اٹھا کر امریکہ کو دیئے اور بدلے میں ڈالرز لئے اور اس بات کو مشرف فخریہ بیان کرتا ہے۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ مشرف نے پاکستانیوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر امریکہ کے سامنے پیش کیا، مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے اتنے بندے بیچ دیئے ہیں، جب قومی مفاد کا سودا کیا جاتا ہے تو کہیں نہ کہیں تو اس کی وصولی کی جاتی ہے،
کبھی ہم نے امریکیوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ہماری ایئر اسپیس کیوں استعمال کر رہے ہیں، امریکہ یہ ساری باتیں بھول گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری کسی امریکی عہدیدار سے ملاقات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے، مجھے کوئی حق نہیں کہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کروں، جو کچھ میرے پاس ہے یہ اس قوم اور خدا کی دین ہے، مشرف دور میں پاکستان کے ہزاروں ویزے دبئی میں بیٹھ کر دیئے گئے، ہماری سوسائٹی میں ہر طرح پر امریکی دخل اندازی ہے۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ روسی سفیر سے ملاقات ہوئی ان کے امریکہ سے متعلق اپنے تحفظات ہیں، خدا کا فضل ہے کہ سفارتی طور پر پاکستان تنہا نہیں ہے۔