اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمن ملک نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پرویز مشرف کے ساتھ کسی این آر او کا نتیجہ نہیں تھی۔ ہفتہ کو ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے طالبان کی میٹنگ ہوئی جس میں بیت اللہ محسود، القاعدہ کا دوسرا اہم کمانڈر ابوعبیدہ مصری بھی شریک تھے، دو خودکش حملہ آوروں بلال اور اکرام اللہ کو دو لاکھ روپے دے کر میرانشاہ کے ایک مدرسے میں بھیجا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں خودکش حملہ آوروں نے مدرسے میں ایک رات قیام کیا اور اگلے روز گاڑی کے ذریعے مدرسہ حقانیہ پہنچے۔ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کے قتل ہونے کے بعد ہمارے پاس اس بات کے مکمل ثبوت تھے کہ اس میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) شامل ہیں۔رحمن ملک کا کہنا تھا کہ میری حالیہ معلومات کے مطابق دوسرا خودکش بمبار اکرام اللہ زندہ ہے، اس نے پاکستان میں شادی کی اور جب اسے خطرہ محسوس ہوا تو وہ افغانستان فرار ہوگیا جہاں قندھار میں اس پر حملہ کیا گیا جو ناکام رہا، تاہم وہ اب بھی قندھار میں موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے خط لکھنے جارہے ہیں کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث دہشت گرد کی افغانستان میں موجودگی کو سرکاری سطح پر اٹھائے۔پرویز مشرف سے متعلق سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ پرویز مشرف اس وقت عدالت سے غیر حاضر ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی وضاحت عدالت میں آکر دیں جبکہ بینظیر کو اگر سابق وزرائے اعظم جیسی سیکیورٹی ملتی تو شاید وہ بچ جاتیں۔انہوں نے انکشاف کیا ہم 26 دسمبر کو پشاور سے آرہے تھے جس دوران راستے میں مجھے ایک جنرل کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی بینظیر سے ملنا چاہتے ہیں، اسی رات ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ ہوسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حملے کا خطرہ تھا تو پھر مناسب سیکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کے ساتھ کوئی این آر او پر دستخط نہیں کیے بلکہ وہ صرف ملک میں دوبارہ جمہوریت لانے کی جدوجہد تھی، بینظیر بھٹو کسی این آر او کے تحت وطن واپس نہیں آئی تھیں بلکہ پرویز مشرف نے تو بینظیر کو فون کرکے یہ دھمکی دی کہ آپ کی سیکیورٹی کا انحصار آپ کے تعاون پر ہے۔