اسلام آباد،پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی)خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالخلافہ پشاور میں گزشتہ روززرعی یونیورسٹی میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کا مقابلہ جس جوانمردی سے پولیس نے کیا وہ قابل تعریف رہا ،پاک فوج سمیت وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے بھی خیبر پختونخوا پولیس کی تعریف کی گئی کہ جس نے بروقت پہنچ کر پاکستان کو بڑے سانحہ سے بچا لیا۔پشاور میں دہشتگردوں کے خلاف اس آپریشن میں ایس ایس
پی پشاور نے فرنٹ لائن پر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا۔سجاد علی خان یونیفارم پہننے کی بجائے گھر کے کپڑوں میں ہی دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے پہنچ گئے جس پر انہیں کافی پذیرائی ملی ۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ پولیس پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی بہترین فورس ہے۔ سجاد خان نے کہا کہ مجھے حملے کی اطلاع کنٹرول روم سے ملی۔اطلاع موصول ہونے پر کیو آر ایف، آر آر ایف کو الرٹ جاری کیا اور اسکواڈ کے ساتھ آپریشن کے لیے روانہ ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جذبات میں تھا کیونکہ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات ابھی تازہ ہیں۔ میں گولی سے نہیں ڈرتا ، دہشتگردوں پر جھپٹنا فورس نے سکھا دیا ہے۔ یونیفارم سے متعلق سوال کے جواب میں ایس ایس پی سجاد خان نے کہا کہ اگر میں وردی پہنتا تو تاخیر ہو جاتی ، میں دہشتگردوں کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ روزصوبائی دارالحکومت پشاور میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 9 افراد شہید ہوگئے تھے ٗ سکیورٹی فورسز کی کارروارئی میں تمام حملہ آور بھی مارے گئے ۔تفصیلات کے مطابق صبح پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے قریب واقع ڈائریکٹوریٹ جنرل زراعت
خیبرپختونخوا پر اچانک 3 نقاب پوش مسلح افراد نے حملہ کرکے فائرنگ کی۔واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس ٗایف سی، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بڑی تعداد جائے وقوع پر پہنچی اور آپریشن کا آغازکیا۔آپریشن کے دوران یونیورسٹی روڈ اور اطراف کی سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کرکے جائے وقوعہ کی فضائی نگرانی بھی کی گئی ٗ آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن کیا گیا ٗ اس دوران فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں
بھی سنی گئیں۔فورسز نے چند گھنٹوں کے آپریشن میں ڈائریکٹوریٹ میں موجود تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، ہلاک دہشت گردوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا، جس میں بارودی مواد کے علاوہ 20 ہینڈ گرنیڈ اور 3 خودکش جیکٹس بھی شامل تھیں، جنہیں دہشت گرد پھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے کے نتیجے میں 6 طلبا سمیت 9 افراد شہید ہوئے جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد
زخمی ہوئے۔ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان کے مطابق حملہ آور شٹل کاک برقعے پہن کر رکشے کے ذریعے ڈائریکٹوریٹ آئے تھے، دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں، حملہ آوروں نے سب سے پہلے چوکیدار کو نشانہ بنایا، تاہم سیکیورٹی فورسز کے بروقت پہنچنے کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوا۔حملے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھا کرنا شروع کردیئے ہیں اور تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے میں ملوث حملہ آور گزشتہ رات پشاور پہنچے، حملے میں ملوث ایک دہشت گرد واٹس ایپ استعمال کرتارہا جبکہ رات گئے دانش آباد سے دہشت گردوں نے پہلی فون کال کی۔آپریشن کے بعد آئی جی کے پی صلاح الدین نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صبح تقریباً 8 بج کر 35 منٹ پر حملے کی اطلاع موصول ہوئی، 3 دہشت گرد رکشہ میں برقع پہن کر آئے اور انہوں نے پہلا حملہ چوکیدار
پر کیا جس میں وہ زخمی ہوگیا۔آئی جی نے بتایا کہ اطلاع ملتے ہی پولیس کی گاڑیاں 3 سے 4 منٹ کے اندر پہنچیں جس کے بعد فوج کے دستے بھی پہنچ گئے، پولیس اور آرمی کی کوآرڈینیشن اتنی اچھی تھی کہ وقوعہ شروع ہوتے ہی سیکیورٹی فورسز ڈائریکٹوریٹ کے اندر گھس چکی تھیں۔آئی جی کے مطابق آپریشن میں پشاور پولیس، ایلیٹ گروپ، ریپڈ رسپانس گروپ اور پاک فوج کے ریگولر اور اسپیشل دستوں نے حصہ لیا۔انہوں نے کہاکہ
آپریشن کے دوران ایک جانب سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں سے لڑ رہی تھیں، وہیں طلباء کو بھی نکالا جارہا تھا، جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں تین چار کھیپوں میں باہر نکالا گیا۔آئی جی کے پی نے بتایا کہ واقعہ میں 6 طلباء ٗ ایک چوکیدار اور چند سویلینز شہید ہوئے۔انہوں نے کہاکہ 3 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کردیا گیا آئی جی کے پی کے نے کہا کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں دہشت گرد آسان اہداف کی طرف جاتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے
واقعات ایک ممکنہ امر ہے۔صلاح الدین محسود نے کہا کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں اور افغانستان کے دہشت گرد ملوث ہیں اور یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔واقعہ کے بعد پشاور کے اسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے اور زخمی ہونے والوں کو خیبرٹیچنگ ہسپتال سمیت دیگر اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان کے مطابق واقعے کے 15 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا
جن میں طلباء سمیت ایک چوکیدار، ایس ایچ او یونیورسٹی کیمپس فرحت اور ایک صحافی بھی شامل تھا۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا دورہ کرکے حملے کے زخمیوں کی عیادت کی۔اس موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں پرویز خٹک نے دہشت گردی کے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس فورس بن گئی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنا ہے، کئی دہشت گرد کارروائیاں روکی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک دہشت گرد زخمی حالت میں گرفتار ہے جس سے تفتیش ہو رہی ہے۔