اسلام آباد (آن لائن)وزیر مملکت برائے داخلہ اور مسلم لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ فوجی افسر کو حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے درمیان سیاسی معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا کیونکہ ایسا کرنے سے اداروں کی غیر جانبداری پر حرف آتا ہے اور ان کے متنازع ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ فیض آباد پر تین ہفتوں سے جاری دھرنا
ختم کروانے کے لیے وفاقی حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے درمیان تحریری معاہدے پر انٹر سروسز انٹیلی جنس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط ہونے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر مسلم لیگ کے رہنما نے کہا کہ دھرنا ختم کروانے کی حد تک تو یہ ٹھیک تھا لیکن طویل مدت میں اس کے اداروں کے لیے اثرات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ان سیاسی معاملات میں کبھی جھکنا پڑتا ہے کبھی ایک فریق سے بات کرنا ہوتی ہے۔ ایسے میں آرمی کے لوگوں کی موجودگی سے اداروں کی غیر جانبداری پر باتیں کی جا سکتی ہیں اور ان کے متنازع ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تمام اداروں کو خاص طور پر جو یونیفارم پہنتے ہیں، چاہے ان کی وردی کا رنگ کوئی بھی ہو انھیں غیر جانبدار ہونا چاہیے اور تنازعات سے بچنا چاہیے، وہ اسی صورت میں زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔سیاسی معاملات میں یا جہاں پر متنازع ہونے کا خدشہ ہو ان اداروں کو قانون کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے۔ قانون سے ہٹ کر جب کردار ادا کیا جاتا ہے تو پھر متنازع ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے کے اہداف اور پس پردہ مقاصد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ اس دھرنے کا ہدف بھی وہی تھا
جو سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لیے چلائی گئی مہم کا تھا۔دونوں کا ہدف آئندہ عام انتخابات اور مسلم لیگ ن کا ووٹ ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے پہلے (نواز شریف کی) نااہلی کی گئی۔ منصوبہ سازوں کا خیال یہ تھا شاید نااہلی سے اور اب اس دھرنے سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کمی آ جائے گی۔ اس کے بعد یہ اب منصوبے کا اگلا حصہ ہے جس کے تحت مسلم لیگ ن کے بریلوی مکتبہ فکر کے ووٹروں کو پارٹی
سے متنفر کرنا ہے لیکن یہ چال بھی ناکام ہو گی۔ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہی لوگ اس دھرنے کی پشت پر ہیں جو حکومت کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کے پیچھے تھے تو طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک ہی سوچ دونوں کے پیچھے کام کر رہی ہے۔وہی سوچ اس (دھرنے) کے بھی پیچھے ہے۔ ایسی قیادت وہ چاہتے ہیں جو کہ لیڈر نہ ہو۔ ایک سوچ اس ملک میں یہ سمجھتی ہے کہ لیڈر اور وزیراعظم ایسا کمبینیشن ہے جو اگر ایک شخصیت
میں یکجا ہو جائیں تو پھر ان کی من مانی نہیں چلے گی، اندرونی سلامتی پر اور خارجہ پالیسی پر۔تاہم طلال چوہدری نے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں شعور آ گیا ہے اس لیے یہ چال بھی ناکام ہو گی۔لوگ دیکھ رہے ہیں کہ گالیاں دینے والے ان کے مذہبی رہنما نہیں ہو سکتے۔ یہ لوگ بریویلوی مکتبہ کے نمائندے ہونے کے دعویدار ہیں لیکن لوگ ان کی اصلیت سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ختم نبوت نہیں بلکہ ختم حکومت کا معاملہ تھا۔