اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،آئی این پی)اسلام آباد میں فیض آبادکے مقام پر تحریک لبیک کی جانب سے جاری رہنے والے 22 روزہ دھرنے پر پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لیا گیا تھا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے لئے گئے نوٹس میں کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی پچھلے 6 سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ انہیں 21 نومبر 2011 کو پنجاب کے
کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور پھر انھیں مستقل جج مقررکیا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بننا شروع ہوئے جب انھوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم افغان بستیوں کو گرانے میں ناکامی اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر سی ڈی اے کے حکام کو جیل بھجوایا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 3نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے بعد ججز کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں پولیس حکام کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کرنے کا بھی حکم دیا جب پرویز مشرف ضمانت کے لیے ان کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔عدالتی احکامات کے بعد پرویز مشرف کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے، بعدازاں پولیس نے انھیں حراست میں لے کر متعلقہ عدالت میں پیش کیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی یش پیش تھے۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق انھیں اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قربت بھی حاصل تھی۔شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر پیغمبر
اسلام کے بارے میں گستاخانہ مواد کا نوٹس بھی لیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حکم پر ہی شکرپڑیاں کے قریب پریڈ گراونڈ کو ’’ڈیموکریسی پارک‘‘ اور ’’سپیچ کارنر‘‘ کا نام رکھا گیا۔انہوں نے تحریک انصاف کو گزشتہ سال اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہویے انھیں دھرنا دینے سے روک دیا تھا۔ان کا نام اس وقت بھی میڈیا میں آیا تھا جب انھوں نے ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر ہونے والی تقریبات پر
پابندی عائد کر دی تھی۔اس وقت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے سی ڈی اے کے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری
کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا تھا تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرم کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔رپورٹ کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی عملی سیاست میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر راولپنڈی سے انتخابات میں
بھی حصہ لیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان فوجی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پربھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں صرف دھرنا ختم اور فیض آباد انٹرچینج خالی کرانے کا حکم دیا تھا، فوج ہمارا فخر ہے ،اس میں ہمارے باپ، بیٹے اور بھائی شامل ہیں لیکن فوج کی ثالثی کا کردار قابل قبول نہیں،فوجی افسر ثالث کیسے بن سکتے ہیں، آپریشن
ناکامی کی رپورٹ پیش کی جائے ، آرمی اپنے آئینی کردار میں رہے، آپریشن ردالفساد کدھر گیا، یہاں کسی کو فساد نظر نہیں آیا،بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لئے خون بھی حاضر ہے،فوج قانون توڑنے والے جلوس کے سامنے کیسے نیوٹرل رہ سکتی، اعلی عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کے معافی مانگنے کی شق معاہدے میں کیوں شامل نہیں؟،ہمیں معاملے کی حساسیت کا علم ہے ،پیر کوسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی
نے فیض آباد دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔فاقی وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش ہوئے۔اس موقع پر چیف کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدہ طے پاگیا اور ہائیکورٹ پر عملدرآمد کردیا جائے گا جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں فیض آباد کو دھرنا مظاہرین سے خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ معزز جج نے استفسار کیا کہ دھرنا مظاہرین سے ہونے والا معاہدہ پڑھ
کر سنائیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ راجا ظفرالحق رپورٹ 30 روز میں منظرعام پر لائی جائے گی ۔جسٹس شوکت صدیقی نے مزید استفسار کیا کہ معاہدہ بہ وساطت میجر جنرل فیض حمید کیا ہے اور آئین کے تحت کسی میجر کو ثالث بننے کا کیسے اختیار ہے۔اس موقع پر وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ قومی قیادت کے اتفاق سے معاہدہ کیا گیا اور وہ ثالث نہیں گواہ کے طور پر شامل ہوئے جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ اس بات پر ان کا کورٹ
مارشل ہونا چاہیے، آپ نے انہیں ثالث بنا دیا۔فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ آرمی اپنے آئینی کردار میں رہے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریٹائرمنٹ لے کر سیاست میں آئیں۔جسٹس شوکت صدیقی نے سوال کیا کہ قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا، اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں، آپریشن ردالفساد کدھر گیا، یہاں کسی کو فساد نظر نہیں آیا، دھرنے والوں نے ججز کو گالیاں دیں، معافی کی شق معاہدے
میں کیوں نہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ معاہدے میں جنرل قمر باجوہ کا شکریہ ادا کیا گیا، آرمی چیف کی آزادانہ کیا حیثیت ہوتی ہے، قانون شکنی کرنے والوں اور انتظامیہ کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے۔فاضل جج نے مزید استفسار کیا کہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات ختم کرکے معافی کیسے دی جائے گی۔معزز جج نے کہا کہ فیض آباد کے ساتھ جی ایچ کیو ہوتا تو دیکھتا کیسے یہاں دھرنا ہوتا، بتا رہے ہیں
کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکیورٹی کا یہ حال ہے۔جسٹس شوکت صدیقی نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج آپ کی ہدایات پر عمل کرنے کی پابند ہے، آپ نے کوئی کام نہیں کیا، دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا ہے اور کیا معاہدے میں آپ نے کوئی اپنی ایک بھی بات منوائی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ معاہدہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ مظاہرین کے پیچھے ثالثی کرانے والے ہیں، جس پر احسن اقبال نے کہا کہ
یہ تو مظاہرین ہی بتا سکتے ہیں میں کیسے بتا سکتا ہوں۔کمرہ عدالت میں موجود نمائندہ آئی ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جو رپورٹس آئیں وہ غیر تصدیق شدہ ہیں اس لئے عدالت سوشل میڈیا پر کمنٹ نہ کرے۔ نمائندے نے کہا کہ صورتحال کنٹرول کرنے کے دو ہی راستے تھے، پرامن طریقہ یا پرتشدد طریقہ، جب عدالت کا حکم ملا تو پھر پرامن راستے کا انتخاب کیا۔اس موقع پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ انتظامیہ کا حصہ ہیں،
آپ ثالث کیسے بن گئے، آپ کو گولی چلانے کا حکم نہیں دیا، پہلے وارننگ دینی تھی، بات نہ ماننے پر فورس استعمال کرنی تھی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لئے خون بھی حاضر ہے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لئے چندے جمع کیے اور اب بھی ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو افواج کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ معزز جج نے مزید کہا کہ فوج ہمارا فخر ہے اور اس میں ہمارے باپ، بیٹے اور بھائی
شامل ہیں لیکن فوج کی ثالثی کا کردار قابل قبول نہیں اور فوج کو اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرنا چاہیے۔احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا ختم ہونے والا ہے اور کچھ دیر میں پریس کانفرنس بھی ہوگی جس پر عدالت نے سوال کیا کہ اس کی کیا ضمانت پر جس پر وزیر داخلہ نے بتایا کہ دھرنے والوں نے اس حوالے سے لکھ کر دیا ہے۔عدالت نے حکومت اور دھرنا مظاہرین کے درمیان معاہدے کی کاپی عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔