اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے ریٹائرڈ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ دھند اور کہر کی وجہ سے حدِ بصارت بھی بے حد محدود ہے۔ تاہم بٹالین نے 14/13نومبر2017ء کی شب تین کمپنیوں کے ساتھ حملہ کیا۔ اس آپریشن کو ’’فصیلِ آہن 4‘‘ کا کوڈ نام دیا گیا۔ اس چوٹی سے پہلے ایک اور چوٹی ’’بولڈر ٹاپ‘‘ بھی آتی ہے۔ بٹالین نے اس ٹاپ پر حملہ کیا اور دہشت گردوں کو وہاں سے فرار ہوتے بن پڑی۔
یہ اس آپریشن کا پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں موکھا پر حملہ کرنا تھا۔ جہاں 80,70 دہشت گرد مورچوں میں جمے بیٹھے تھے۔ان پر ہر اول کمپنی نے حملہ کیا اور اس دلیرانہ کارروائی میں کیپٹن جنید حفیظ نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے علاوہ اس کمپنی کے مزید 7جوان بھی زخمی ہوگئے جبکہ 35دہشت گرد مارے گئے باقی کے گرد گھیرا ڈال دیا گیا۔ گیارہ گھنٹے کی لگاتار لڑائی میں محصور دشمن کے اکثر دہشت گرد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ جب یہ علاقہ کلیئر ہوچکا اور موکھا ٹاپ پر تسلط حاصل کرلیا گیا تو سرحد پار اُن علاقوں پر مارٹر گولوں کی بارش کردی گئی جن سے یہ دہشت گرد اٹھ کر آئے تھے۔جن سویلین لوگوں نے ان کو پناہ دے رکھی تھی وہ بھی اسی فائرنگ کی زد میں آئے۔ یہ فائرنگ مسلسل ایک ہفتہ تک جاری رہی اور جنرل نکولسن نے جس مارٹر فائر کا ذکر کیا ہے اور جن’’بے چارے‘‘ افغان سویلین باشندوں کے گھر بار چھوڑنے کا رونا رویا ہے وہ وہی لوگ تھے جو 80,70 دہشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہے تھے۔ جب افغانستان نے یہ دیکھا کہ اب پاکستان آرمی اس سرحد پر آکر جم کر بیٹھ گئی ہے اور باجوڑ میں پاکستان علاقے پر حملہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تو جنرل نکولسن نے ناچار تعاون کا ہاتھ بڑھا ہے۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اس محاذ پرپاک آرمی کے ایک اور سپوت میجر اسحاق کی شہادت کی خبریں آ رہی ہیں۔ میجر اسحاق کا تعلق صوبہ پنجاب کے ایک مردم خیز شہر خوشاب سے تھا اور وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کلاچی کے مقام پر دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں شہید ہوئے ہیں۔ انکی شہادت پر پوری قوم میں پاک فوج سے محبت کا جذبہ بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہ شہادتیں جس غرض اور مقصد کے لئے دی جا رہی ہیں اس کا راز بھی پاکستانیوں پر جلد افشاء ہو نے والا ہے۔