اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا ختم نہ کرائے جانے پر انتظامیہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے ۔ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اس موقع پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں پیش ہوئے ۔
سماعت کے دور ان دھرنا ختم نہ کر انے پر سخت برہمی کا اظہار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سیاسی قیادت مظاہرین سے خود مذاکرات کر رہی ہے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 4 سے 5 ہزار افراد تمام شہریوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں اور وہ کیا مطالبہ لے کر بیٹھے ہیں اس سے متعلق سوچنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں، اصل مسئلہ صرف امن و امان کا ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ لاکھوں افراد کے حقوق سلب ہونے نہیں دیں گے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ کچھ باتیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کی جا سکتیں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جو بات کرنی ہے اوپن کورٹ میں کریں، جو بات ہے اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 8 لاکھ شہریوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرسکتے، انہوں نے حکومت سے استفسار کیا کہ تاجروں، مریضوں، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بتایا جائے ابھی تک عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ علیحدگی میں کیا بات کریں گے یہی کہِیں گے کہ دھرنے والوں کے پاس اسلحہ ہے۔اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور قوم سے خطاب کرکے بتائیں کہ دھرنا ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں۔جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو فیض آباد سے نہ ہٹانے پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ساڑھے 11 بجے تک طلب کیا۔عدالت کی جانب سے طلبی پر وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو فاضل جج نے سوال کیا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوسکا؟
اس موقع پر احسن اقبال نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے تاہم طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کے لئے 48 گھنٹے کی مہلت کی استدعا کی اور کہا کہ خدشہ ہے کہ تمام معاملات آئندہ انتخابات کے لیے ہو رہے ہیں، ہمیں 2 روز کی مہلت دی جائے۔ جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کے بعد مزید وقت نہیں مانگا جاسکتا، آپ اس معاملے میں بے بس ہیں۔
اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ میرے زیرنگرانی ہے اور میں نے ہی انتظامیہ سے کہا کہ پرامن طریقے سے حل نکالنا ہے جس کی ذمے داری قبول کرتا ہوں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ بطور جج لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہوں، دھرنے والے اتنی اہم جگہ تک کیسے پہنچے ٗیہ سمجھ سے بالا تر ہے، غرض نہیں دھرنے والے سیاسی، سیکولر یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ٗعدالت کو صرف غرض ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے۔
جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ ناموس رسالتؐپوری اْمت کا مسئلہ ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا لیکن یہ کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں ٗ یہ محض مذہبی جماعت نہیں سیاسی پارٹی بھی ہے جو الیکشن میں حصہ لے چکی ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی پر عدالت نے بہت محنت سے چند حدود متعین کیں تھیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، عدالت جو حدود متعین کرچکی ہے اس پر عمل کیا جائے۔فاضل جج نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سے کسی کو نہیں روکیں گے، یہ ان کا آئینی حق ہے تاہم دھرنا دینے والوں کو احتجاج کے لیے مختص جگہ پر بھیجا جائے۔عدالت نے سماعت جمعرات 23 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردئیے۔