اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت میں اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے 5 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کردیں۔ جمعرات کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی ۔سماعت کے دور ان استغاثہ کے دو گواہان شاہد عزیز اور طارق جاوید پر اسحاق ڈار کے
وکیل خواجہ حارث نے جرح کی ٗ شاہد عزیز قومی سرمایہ کاری ٹرسٹ اسلام آباد کے ملازم ہیں جبکہ طارق جاوید لاہور کے نجی بینک میں افسر ہیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار احتساب عدالت کے روبرو چوتھی مرتبہ پیش ہوئے اس سے قبل وہ 25 ستمبر، 27 ستمبر اور 4 اکتوبر کو اثاثہ جات ریفرنس کا سامنا کرنے کیلئے پیش ہوئے تھے ٗ کمرہ عدالت میں وزیر مملکت انوشہ رحمان، طارق فضل چوہدری اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ بھی موجود تھے۔دوران سماعت استغاثہ کے گواہ طارق جاوید نے اسحاق ڈار کی دو کمپنیوں اور اہلیہ تبسم اسحاق ڈار سمیت 5 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔نیب کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ پہلا بینک اکاؤنٹ تبسم اسحاق ڈار، دوسرا ہجویری مضاربہ اور تیسرا ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ کے نام پر کھولا گیا جبکہ ہجویری مضاربہ کے اکاؤنٹس عبدالرشید، نعیم محبوب اور ندیم بیگ آپریٹ کررہے تھے۔گواہ طارق جاوید نے بتایا کہ اسحاق ڈار کی کمپنی ہجویری مضاربہ کی جون 1995 سے جنوری 2001 کی بینک اسٹیٹمنٹ بھی جمع کرائی ہے جب کہ بینک کے حکم پر نیب لاہور میں اکاؤنٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کیں۔اس موقع پر اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ گواہ کی دستاویز پر اعتراض ہے،
عدالت میں تصدیق شدہ دستاویزات نہیں دی گئیں، کچھ صفحات غائب ہیں، کچھ پر نمبر موجود نہیں اور ترتیب بھی آؤٹ ہے، ایسی دستاویزات تو کوئی بھی تیار کر سکتا ہے۔اس موقع پر معزز جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ ایسی بات نہیں یہ بینک کی دستاویزات ہیں ٗ تصدیق شدہ کاپی منگوانے کا حکم دے دیتے ہیںجس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ تصدیق شدہ کاپی کا ثبوت موجود بھی ہے یا نہیں، اس ریکارڈ پر
عدالت کیس چلانا چاہے تو چلالیں۔نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ گواہ کی شہادت کو ابتدائی شہادت کے طور پر لیا جائے جبکہ وکیل صفائی کا اعتراض درست نہیں، یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ شہادت کو بنیاد شہادت تسلیم کرے۔اسحاق ڈار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے عدالت عظمیٰ میں بھی کہا تھا اس طرح کیس دو دن میں ختم ہوسکتا ہے ٗالیکٹرانک ٹرانزکشن ایکٹ 2000 کی شق 12 کا حوالہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔احتساب عدالت کے اطراف پولیس اور ایف سی کے 200 اہلکار تعینات ہیں اور عدالت جانے والے غیرضروری راستوں کو بند کرتے ہوئے صرف ایک دروازے سے سائلین کو اندر جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔