اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ سردار عدنان سلیم مزاری نے راجہ صائم الحق ستی ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں وفاق بذریعہ سیکرٹری کابینہ ڈویڑن، وزیراعظم بذریعہ سیکرٹری اور سیکرٹری وزارت دفاع کو فریق بنایا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے وطن عزیز کے لئے بڑی قربانیاں دیں، جنرل راحیل شریف کے بھائی میجر شبیر شریف 1971ء کی جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، ان کے ماموں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو بھی نشان حیدر دیا گیا، پاک فوج میں جنرل راحیل شریف کی عظیم خدمات ہیں، انہیں دوسرے بڑے سویلین ایوارڈ ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ 27 اکتوبر 2013ء کو انہیں چیف آف آرمی سٹاف کو عہدے پر ترقی دی گئی ۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف آئندہ ماہ نومبر کے تیسرے ہفتے نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انہیں تقرری کا فیصلہ ابھی یا رواں ماہ کے اختتام تک کر لینے کا مشورہ دیا جارہا ہے تا کہ قیاس آرائیوں سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ نئے آرمی چیف کو اہم اسٹریٹجک اور دفاعی امور پر موجودہ آرمی چیف کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع بھی ملے گا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں دل کی بائی پاس سرجری کے بعد حالیہ ہفتوں کے دوران مختلف لوگوں نے انہیں چند ماہ قبل ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان کا مشورہ دیا تھا۔ بعض تو یہ چاہتے تھے کہ اعلان گزشتہ اگست ہی میں کر دیا جاتا، تاہم وزیراعظم نے اسے احتراز کیا گو کہ وہ اپنے دل کی بات کسی کو بتاتے نہیں۔ ایک باخبر مسلم لیگی کے مطابق وزیراعظم کو نئے آرمی چیف کی تقرری میں کوئی جلدی نہیں اور وہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں ہی اس کا اعلان کرنا چاہتے ہیں، تقرری کا عمل شروع ہونے کے حوالے سے خاصی قیاس ا?رائیاں ہیں لیکن درحقیقت وزارت دفاع نے اہل امیدواروں کے ناموں پر مشتمل سمری آگے نہیں بڑھائی ہے۔ گزشتہ ماہ چند میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ سینئر ترین لیفٹننٹ جنرلز پر مشتمل ڈوسئیر وزیراعظم کو بھیجا گیا ہے ، تاہم رابطہ کرنے پر وزارت دفاع کے حکام نے اس کی تردید کی ، چند ہفتوں قبل جب ایک باخبر وفاقی وزیر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اہل لیفٹننٹ جنرلز کا ڈوسیئر نومبر کے دوسرے ہفتے میں بھیجے جانے کا امکان ہے۔ ’’ ڈان تنازع ‘‘ جسے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان دراڑیں ڈالنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے تناظر میں آرمی چیف کی قبل از وقت تقرری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ، کچھ مایوس عناصر ایسے بھی ہیں جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ڈان اسٹوری کسی سازش کا حصہ تھی اور حکومت نے فوج کو دھچکا پہنچانے کی دانستہ کوشش کی۔ ان ہی لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک سینئر کالم نگار نے لکھا تھا ’’ لہٰذا کون یہ لائن چلا رہا ہے کہ خارجہ پالیسی محاذ پر معاملات غلط جارہے ہیں اور پاکستان کو تنہائی کا سامنا ہے؟ حکومت میں عناصر نے ایسا کہا، چونکہ عسکری قیادت کو ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
یہ اشارہ فوری طور پر فوج پر غیر براہ راست حملے کے مترادف سمجھا گیا۔گزشتہ تین سال کے دوران جنرل راحیل شریف کی عوامی مقبولیت حکومت کیلئے انتہائی تکلیف دہ رہی اور اب فوجی کمان پر پلٹ پڑنے کا موقع تھا، لیکن اس حملے میں حقیقت پسندی کا بھی پہلو تھا‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے لگا اور ان کے جانشین کی تقرری کا سوال سامنے آیا۔ فوج کے ہاتھوں پاکستان کا مبینہ طور پر تنہائی کا شکار ہونے کی بات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ایک طرح سے یہ حکومت کیلئے اپنی مرضی کے آرمی چیف کی آزادانہ تقرری کی گنجائش مل گئی۔ ان کی رائے میں ’’اور نواز شریف اپنے وفادار کا تقرر نہ کر سکے جس سے بحیثیت آرمی چیف وہ مطمئن ہوں، اس مایوسی کی خلش رہی۔ لہٰذا مسئلہ کے حل کیلئے ان کے پاس آخری موقع ہے اور وہ غلطی کرنا نہیں چاہتے۔ جنرل راحیل شریف کے خلاف چہ مو گوئیوں کی مہم شروع ہو چکی ہے ، ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی بھی اطلاع ہے جس میں آئی ایس آئی کی مبینہ جہاد پالیسیوں اور پاکستان کی مبینہ تنہائی میں اس کے کردار کی سختی سے جانچ پڑتال کی گئی اور جائزہ لیا گیا۔ ایسے کالم نگار جیسے لوگوں کی سوچ نے سازشی کہانیوں پر یقین رکھنے والوں کی سوچ پر اثر ڈالا جو سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ڈان جیسا آزاد اخبار فوج کو ہدف بنانے کیلئے حکومت نے استعمال کیا۔ ایسی مایوس آوازوں کے برخلاف کچھ ایسے بھی ہیں جو دلیل اور منطق سے بات کرتے ہیں کہ وزیراعظم کیلئے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ اب نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیں۔ ایک سینئر صحافی نے اپنے تازہ تر ین آرٹیکل میں دلیل دی کہ موجودہ صورتحال میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ سبکدوش ہونے والے اور نئے آنے والے آرمی چیف میں تفصیلی مکالمہ کی پشت پر ہی فوجی کمان کی منتقلی ہو۔ یہ مصافحہ، سلامی یا محض نیک خواہشات کے اظہار تک محدود نہیں ہو سکتا۔ یہ رابطے اور تبادلہ خیالات جنرل راحیل شریف کے ریٹائرمنٹ تک ہفتوں پر محیط عمل ہونا چاہئے۔ افغانستان میں امن کے معمے سے لے کر پاک چین اقتصادی راہ داری، بھارت کے پاکستان کی ایٹمی چوکھٹ چھونے کی کوششیں سے لے کر واشنگٹن کی ڈبل ٹائمنگ، کراچی کی سیاست سے فاٹا کے حتمی فیصلے تک، فوج کے اندرونی مالی و انتظامی امور سے لے کر سیاسی قیادت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے آئندہ منصوبوں پر اتفاق رائے سمیت لاکھوں چیزیں ایسی ہیں جن کے بتانے اور وضاحت کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ موجودہ تناظر میں اچھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے فوری طور پر باوقار انداز میں انجام کو پہنچا دیاجائے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف نے اپنا فیصلہ التواء میں رکھا تو وہ وقت اور قوم کی ضرورت میں اپنے فریضہ کی انجام دہی میں ناکام ہونگے۔ انہیں کھل کر اور سرعت سے کام کرنا چاہئے ، وقت پر فیصلے کا اعلان آئینی ضرورت ہے۔ جنرل راحیل شریف کی جگہ لینے والے کے نام کا اعلان ملک کے اسٹرٹیجک مفاد میں ہوگا۔ نئے آرمی چیف کا انتخاب لٹکائے رکھنا بڑی مہنگی پالیسی ہوگی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے آخر میں لکھا کہ ملک کو سیاسی اور فوجی طور پر ایک پلان کی ضرورت ہے ، سخت چیلنج درپیش ہیں کسی رسمی کارروائی کا وقت نہیں، نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری وقت کی آواز ہے ۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف فیلڈ مارشل؟ بڑا اقدام اٹھا لیا گیا!!!
16
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں