نئی دہلی (آئی این پی )بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطلب ہے کہ بھارت تعاون کے تمام راستے بند کر رہاہے ، ’کلبھوشن کی گرفتاری سے پاکستان کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنا چاہتی ہیں،بھارت کے پاس سرجیکل اسٹرائیک کے کوئی ویڈیو شواہد موجود نہیں، اگر سرجیکل اسٹرائیک ہوتی تو پاکستان فوراً اس کا جواب دیتا ،پاکستانی فوج کو تیاری کرنے کیلئے وقت کی ضرورت نہیں وہ ہر وقت دشمن کے مقابلے میں تیار ہے، ممبئی حملوں کی تحقیقات بھارتی عدم تعاون کے سبب تاخیر کا شکار ہیں ، بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستان سے اڑی حملے کے شواہد کا بھی تبادلہ نہیں کیا ، ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں اڑی حملے کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہیے، پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اس لئے بھارت اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنی چاہیئے، سارک اجلاس ماضی میں بھی ملتوی ہوتے رہے ہیں، اگر یہ اجلاس اس سال نہیں ہوا تو اگلے سال ہوگا اور سارک کے 19 ویں سربراہ اجلاس کا میزبان پاکستان ہی ہو گا۔بھارتی ٹی وی ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط نے لائن آف کنٹرول کے پاکستانی علاقے میں ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘کے بھارتی دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ایل او سی کی خلاف ورزی کی ہے،29 ستمبر کو کوئی سرجیکل سٹرائیک نہیں ہوئی، اگر ایسا کچھ بھی ہوتا تو پاکستانی فوج اس کا بھرپور جواب دیتی کیونکہ پاکستانی فوج کو تیاری کرنے کیلئے وقت کی ضرورت نہیں وہ ہر وقت دشمن کے مقابلے میں تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کی تحقیقات بھارتی عدم تعاون کے سبب تاخیر کا شکار ہیں جب کہ بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستان سے اڑی حملے کے شواہد کا بھی تبادلہ نہیں کیا اور ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں اڑی حملے کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہیے۔ عبد الباسط نے کہا کہ ’ہم اس الزام تراشی کے کھیل سے باہر آنا چاہتے ہیں، جبکہ بھارت پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے حملے کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کیوں نہیں کراتا؟ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں پاکستان سے بڑھ کر کسی نے قربانیاں نہیں دیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ میں حائل مسائل کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ جب دونوں ممالک بامعنی مذاکرات کا آغاز کریں گے تب ہی مسائل کے حل نکالے جاسکتے ہیں اور جب تک بات چیت کے عمل کا آغاز نہیں ہوتا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ممکن نہیں،پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایئربیس حملے کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اس لئے بھارت اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنی چاہیئے تاہم ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھارت کشمیر کے بنیادی مسئلے پر بات کرنا ہی نہیں چاہتا اس کے باوجود موجودہ حالات میں ہمیں حقیقت پسندانہ طریقے سے آگے بڑھنا چاہیئے۔ عبدالباسط کا سارک کانفرنس کے ملتوی ہونے کے حوالے سے کہنا تھا کہ سارک اجلاس ماضی میں بھی ملتوی ہوتے رہے ہیں، اگر یہ اجلاس اس سال نہیں ہوا تو اگلے سال ہوگا اور سارک کے 19 ویں سربراہ اجلاس کا میزبان پاکستان ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرتا ہے تو پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں، یہ معاہدہ دو ممالک کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہوا تھا۔ بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیگر حصوں کے عوام کی طرح بلوچستان کے عوام بھی ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، تاہم ہمیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے غیر ملکی ایجنڈے پر سخت تشویش ہے۔انہوں نے رواں سال کے اوئل میں پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی’ ’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کلبھوشن کی گرفتاری سے پاکستان کے اس موقت کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنا چاہتی ہیں۔عبد الباسط نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطلب ہے کہ بھارت تعاون کے تمام راستے بند کر رہاہے ۔