ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

موجودہ ISI چیف کو کیا ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں؟ پاک فوج کی ہائی کمان بڑی تبدیلیاں ‘ اہم انکشافات

datetime 5  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(ایکسکلوژو رپورٹ) پاک فوج کی ہائی کمان میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متوقع۔ تفصیل کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر کو کور کمانڈر کراچی کی ذمہ داریاں تفویض کئے جانے کے امکانات ہیں۔نجی اخبار کے مطابق کے مطابق جنرل رضوان 22 ستمبر 2014ء کو آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تھے۔ اس سے پہلے بطور میجر جنرل وہ ڈی جی رینجرز سندھ کے عہدے پر تعینات رہے اور کراچی آپریشن کو لیڈ کیا تھا۔ وہ شمالی وزیرستان میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو کور کمانڈر کراچی تعینات کئے جانے کا قوی امکان ہے۔ جبکہ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی ایس آئی لگائے جانے کا امکان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میجر جنرل احمد محمود حیات کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی دے کر ڈی جی آئی ایس آئی لگادیا جائے۔واضح رہے کہ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد پاک فوج کا اگلا سربراہ کون ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے اوراس اہم عہدے کیلئے جتنے بھی فوجی افسران فہرست میں شامل ہیں ان میں سے کسی کو فیورٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیوروکریٹس اور فوجی افسران نے ڈان کو بتایا کہ جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جانشین منتخب کرنے کیلئے بیٹھیں گے تو ان کے سامنے ذاتی پسند، سیاسی مقاصد اور اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ کام کرنے کا ان کا اپنا تجربہ بھی ہوگا اور ان کی کوشش ہوگی کہ نیا آرمی چیف ہر طرح سے قابل اعتماد ہو۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت نومبر کے آخر میں ختم ہورہی ہے اور یہ نواز شریف کے لئے پانچواں موقع ہوگا جب کو پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کریں گے۔نواز شریف کو سب سے زیادہ مرتبہ آرمی چیفس کی تقرری کا اعزاز حاصل ہے اور اگر 1999 میں ان کی جانب سے جنرل مشرف کو ضیاء الدین بٹ سے تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کو بھی گن لیا جائے تو یہ چھٹا موقع ہوگا جب نواز شریف چیف آف آرمی اسٹاف کا انتخاب کریں گے۔نواز شریف نے ماضی میں جن آرمی چیفس کو منتخب کیا ان میں جنرل آصف نواز جنجوعہ (1991) ، جنرل وحید کاکڑ(1993) ، جنرل پرویز مشرف(1998) اور جنرل راحیل شریف (2013) شامل ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والے سات آرمی چیفس میں سے پانچ کا انتخاب نواز شریف نے کیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے پاس آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدوں پر تقرری کیلئے چار آپشنز موجود ہیں۔آرمی چیف کے انتخاب کے عمل میں پیچیدگیوں کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف میں اس حوالے سے خاصی دلچسپی پیدا ہوچکی ہے۔مئی 2013 میں انتخابات جیتنے کے بعد نواز شریف نے سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے صلاح مشورے شروع کردیے کہ اگلا آرمی چیف کس کو ہونا چاہیے حالانکہ اس وقت انہوں نے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں چھ ماہ باقی تھے۔اس وقت نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ‘ یہ بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ ماضی میں سینیارٹی کو بالائے طاق رکھنے کا انجام کیا ہوچکا ہے، آرمی چیف کے عہدے کی طاقت کو نظر انداز نہ کریں اور اپنا بندہ والی ذہنیت کو ختم کریں۔’یہ مشورہ اس نظریے پر مبنی تھا کہ جیسے ہی ایک جنرل آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتا ہے وہ اس قدر جذباتی ہوجاتا ہے کہ اپنی انفرادی حیثیت کھو دیتا ہے۔2013 میں آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں شامل قریبی افراد کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اس مشورے کو مانا اور سینیارٹی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوئے جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) اور جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی اسٹاف منتخب کیا۔اس وقت یہ سمجھا جارہا تھا کہ سینئر ترین جنرل ہاورن اسلم کو بائی پاس کیا گیا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مشورہ دیا تھا کہ انہیں عہدہ نہ دیا جائے۔
جنرل راحیل شریف کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر غور شروع نہیں کیا لیکن اس معاملے سے واقف حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے سال کے آغاز سے ہی اس معاملے پر مشاورت شروع کررکھی ہے۔جنوری میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے دیے گئے ا?س بیان کو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے اندورنی معاملات سے واقف لوگ پس پردہ سیاسی چالبازی کا شاخشانہ قرار دیتے ہیں۔جنرل راحیل کا یہ بیان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی موضوع بحث بن گیا تھا اور آرمی چیف کو مدت ملازمت توسیع دینے کے حامیوں اور مخالفین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے مستقبل کے حوالے سے میڈیا اور بینرز کے ذریعے نئی بحث شروع کرنے کے پیچھے بھی وہی سیاسی چالبازی ہے۔جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے تک اگر کوئی ڈرامائی صورتحال پیدا نہ ہوئی تو ممکن ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اگلے آرمی چیف کے نام کا اعلان وقت سے پہلے ہی کردیں تاکہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت کے آخری مہینوں میں ریٹائرمنٹ موڈ پر چلے جائیں جیسا کہ انہوں نے جنرل آصف کی تعیناتی کے وقت کیا تھا۔پاک فوج کے سینئر افسران کی فہرست بہت حد تک واضح ہے، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سینیئر ترین افسر ہیں اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹرجنرل ٹریننگ اینڈ ایویلوئیشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجودہ ہیں۔جنرل زبیر اور جنرل اشفاق کے درمیان دو اور جنرلز بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان۔تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کیلئے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ہے۔اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد جو اس وقت اقوام متحدہ میں ملٹری ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پہلے ہی توسیع پر ہیں اور وہ بھی مزید پروموشن کے اہل نہیں۔جو چار جنرلز آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پانے کے اہل ہیں ان تمام کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 62 ویں لانگ کورس سے ہے۔یہ صورتحال وزیر اعظم نواز شریف کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ بغیر کسی اکھاڑپچھاڑ کے نئے آرمی چیف کا تقرر کرسکتے ہیں۔
تاہم ان چاروں جنرلز کا فوج میں ارتقائی سفر ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔جنرل مشرف کے بعد آرمی کے تمام فور اسٹار جنرلز جن میں جنرل طارق مجید، جنرل خالد شمیم وائیں، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راشد محمود اور جنرل راحیل شریف شامل ہیں، ان تمام کا تعلق انفینٹری سے تھا۔جنرل پرویز مشرف آخری فور اسٹار جنرل تھے جن کا تعلق آرٹلری سے تھا اور فوج کے اس یونٹ کو عام طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج کی شمولیت کے حوالے سے وابستہ کیا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے آخری 14 فور اسٹار جنرلز میں سے 9 نے چیف آف جنرل اسٹاف کی حیثیت سے فرائض انجام دیے جو آرمی چیف کے بعد فوج کا معتبر ترین عہدہ ہے۔اس بار موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف جنرل زبیر اور سابق چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اشفاق دونوں ہی دو فور اسٹار عہدوں کیلئے میدان میں ہیں۔چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی)چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی اسی روز خالی ہوجائے گا جس روز جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہوگی اور یہ عہدہ اگلے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری میں پیچیدگی پیدا کرنے والا بڑا عنصر ہے۔اصولی طور پر تو سی جے سی ایس سی کا عہدہ تینوں مسلح افواج آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے سینئر ترین فور اسٹار جنرل کو ملنا چاہیے تاہم نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے قیام کے بعد سے آرمی کو اس عہدے کیلئے فوقیت حاصل ہوگئی ہے کیوں کہ جوہری کمانڈ اور اسٹریٹجک اثاثوں کا کنٹرول آرمی ہی سنبھالتی ہے۔سی جے سی ایس سی این سی اے کی ڈیپلائمنٹ کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین ہوتا ہے جبکہ اس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔یہ عہدہ رسمی ہی سہی لیکن اصولی طور پر آرمی چیف کے عہدے سے بڑا ہوتا ہے لہٰذا اس عہدے پر سینئر جنرل کو تعینات کیا جانا چاہیے۔ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت کسی جونیئر جنرل کو سی جے سی ایس سی مقرر کرکے سینیارٹی کی تربیت کو نہیں بگاڑے گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…