اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی مقبوضہ جموں اور کشمیر کے علاقے اڑی میں واقع بھارتی فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والےبھارتی فوجی نقصان کےبعد پاک بھارت تعلقات میں شدید کشیدگی آ گئی ہے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا گیا تھا ۔ بھارت کی جانب سے سفارتی دباؤ کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ پاکستان اس واقعہ کی مذمت کرے مگر پاکستان کی جانب سے انکار کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے معروف صحافی نے انکشاف کیا ہےکہ بھارت کے شدید سفارتی دباؤ کےنتیجے میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر شدید اصرار کیا گیا کہ پاکستان اڑی حملے کی مذمت کرےمگر اس کے جواب میں نواز شریف کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں انکار کر دیا گیا ۔ پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ بھارت کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ایسی صورتحال میں پاکستان چند فوجیوں کی ہلاکت کی مذمت کیسے کرسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں کشمیریوں کی شہادت پر امریکہ اور برطانیہ سمیت مغرب کیوں خاموش ہے ؟ اگر اس پر انہوں نے مذمت کی ہے تو پاکستان بھی اڑی حملہ پر مذمت کر لے گا ۔ جس پر دونوں ممالک کے حکام کو چپ لگ گئی ۔ نواز شریف نےمزید کہا کہ اگر کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والے بھارت کو اپنے جرائم پر کوئی شرمندگی نہیں ہےاور جس پر پوری عالمی برادری خاموش ہے تو پاکستان ایسے حالات میں اڑی حملے کی مذمت کس طرح کر سکتا ہے ؟ پاکستان نے دوٹوک الفاظ میں اڑی حملہ میں ملوث ہونے کے بھارتی الزام کو مسترد کرتے ہوئے واقعہ کی شفاف تحقیقات میں مدد فراہم کرنے کی واضح اور کھلے دل کے ساتھ پیشکش کی ہے ۔
واضح رہے کہ پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا نے اڑی حملے کا ڈرامہ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنےکے لئے خود رچایا ہے جس کے بعد وہ پاکستان پر سفارتی دباؤ کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاکستانی موقف کو کمزور کرنا چاہتا ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ کشمیریوں کی جانب سےبھارتی مظالم کے خلاف ایک جوابی کارروائی بھی ہو ۔