اسلام آباد(سپیشل رپورٹ) وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکا سے قبل واشنگٹن کی جانب سے مشترکہ اعلامیے کابھارت نواز مسودہ رضامندی کے حصول کیلئے اسلام آباد بھیجا گیا ، جس میں پاکستان کے جوہری پروگرام میں تخفیف سمیت اس کی افغان و کشمیر پالیسی پر بھی سنگین حملے کی تیاری نظر آئی تھی، جس پر پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کے امریکی دورے کی ممکنہ منسوخی سے واشنگٹن کومتنبہ کیا تھا۔ پاکستا ن نے امریکا کو وزیر اعظم نواز شریف کے امریکی دورے کی ممکنہ طور پر منسوخی کے بارے میں بتادیا تھا، اس اقدام کا مقصد اسلام آباد کے جوہری پروگرام، اسکی افغان و کشمیر پالیسی کو واشنگٹن کی جانب سے ضرب لگانے کا جواب دینا تھا، جوکہ بھارت کے فائدے میں تھی۔ ایک انگریزی روزنامے کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے وزیر اعظم کے امریکا روانہ ہونے سے کئی روز قبل ہی مشترکہ اعلامیے کے مسودے کا تبادلہ رضامندی کیلئے اسلام آباد سے کیا گیا، جوکہ پاکستانی حکام کو واقعی ناگوار گزرا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونیوالے اعلیٰ سطح اجلاس میں واشنگٹن کے مشترکہ اعلامیے کے مسودے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ مسودہ اسلام آباد کیلئے مایوس کن تھاکیونکہ واشنگٹن کے مشترکہ اعلامیے میں ایسی چیزیں نظر آئیں کہ جیسے کہ اس کے ذریعے ملک کے جوہری پروگرام پر سنگین حملہ کرنے کیلئے راہ ہموار کی جارہی اور ساتھ ہی پاکستان کی افغان اور کشمیر پالیسی کو بھی نقصان پہنچانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تجویز دی کہ واشنگٹن کو مطلع کردینا چاہیے کہ وزیر اعظم نواز شریف امریکی خواہشات پر رضامند ہونے کے بجائے اپنا دورہ منسوخ کرنے کو ترجیح دینگے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور نے بھی چوہدری نثار کی تجویز کی توثیق کی۔ وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیاکہ ایک ایسی صورتحال میں امریکا کادورہ کرنا جبکہ مشترکہ اعلامیے کا مسودہ بھی پاکستان کے حق میں تبدیل نہیں ہے،ملک کیلئے تباہ کن ہوگا۔ متفقہ رائے یہ تھی کہ پاکستان ایسے اہم ترین نوعیت کے امور پر سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میں بھی اتفاق رائے ہوا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کی تخفیف جیسی تجاویز پر بات نہیں کریگا۔ ایسے حالات میں وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ واشنگٹن کو واضح طور پر مطلع کردیا جائے کہ پاکستانی وزیر اعظم اس وقت تک امریکی دورہ نہیں کرینگے جب تک کہ مشترکہ اعلامیے کا مسودہ اسلام آباد کی تسلی کی حد تک تبدیل نہ کردیا جائے۔ نتیجتاً، واشنگٹن کو یہ پیغام پہنچادیا گیا کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے جو کچھ اسلام آباد کو کرنے کی تجویز دی جارہی ہے ، وزیر اعظم اس پر رضامند ہونے کے بجائے اپنا دورہ منسوخ کرنے کو ترجیح دینگے۔ اسلام آباد کے اس اقدام سے واشنگٹن میں سراسمیگی پھیل گئی اور اس نے دورے کو منسوخی سے بچانے کیلئے مشترکہ اعلامیے میں سے ان امور کو خارج کردیا ، جن پر پاکستان کو شدید تحفظات تھے۔ اسلام آباد کی تسلی کے مطابق دورے کی تیاریاں کرنے کیلئے وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کو عجلت میں واشنگٹن بھیجا گیا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے نامناسب اقدام پر اسلام آباد کی جانب سے بروقت ردعمل کے باعث پاکستان کے تحفظ اور خارجہ پالیسی کی ناقابل سمجھوتا حدودمحفوظ رہیں۔ دفتر خارجہ کے ذرائع اور کچھ فوجی افسران بھی اس امر پر چوہدری نثار علی خان کی تعریف کرتے ہوئے نظر آئے کہ کس طرح انہو ں نے پاکستان کا دفاع کیا او ر وزیر اعظم کے دورے کے دوران واشنگٹن میں اہم امریکی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطح اجلاس میں اسلام آباد کا موقف پیش کیا۔ ایک ذریعے نے کہاکہ پاکستان کی جانب سے سادہ الفاظ میں بتایا گیا تھاکہ امریکا کا روئیہ پاکستان کے ساتھ کس قدر غیر منصفانہ ر ہا ہے، انہوں نے مزید کہا امریکا کو بے تکلفی سے یہ بتادیا گیاکہ پاکستان کی قربانیوں اور امریکا کے ساتھ دہائیوں پرانے تعلقات کے باوجودبھارت کو فائدہ پہنچانے کیلئے امریکا کی جانب سے اس کے ساتھ غیر منصفانہ روئیہ اختیار کیا گیا۔ امریکیوں کو بتایا گیاکہ پاکستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھا گیا جبکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور حال ہی میں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کے باوجودواشنگٹن کی جانب سے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا تھاکہ امریکی وزیر دفاع نے وزیر اعظم اور انکے وفد سے ملاقات کی ابتداء میں ہی انہیں بتادیاتھاکہ وہ بھارت نواز ہیں، جس پر پاکستان کی جانب سے اس موثر طریقے سے جواب دیا گیا کہ وزیردفاع نے اپنی ملاقات کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ وہ اب بھارت کے ساتھ پاکستان نواز بھی ہیں۔