کیا جائے گا جہاں تک پاکستان کے جوہری طاقتوں کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے عمل کی بات ہے تو اس سلسلے میں کام جاری ہے۔سرتاج عزیز نے امید ظاہر کی کہ بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ ہی نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا جائے گا۔افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کی مدت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری اور استحکام کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں پاکستان ان کا خیرمقدم کرے گا۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ امریکی صدر نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ افغانستان میں بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اس میں اصل فیصلہ افغان حکومت کا ہے۔ اگر وہ چاہے گی کہ پاکستان اس کا حصہ بنے تو پاکستان اس معاملے میں رابطہ کاری اور تعاون کے لیے تیار ہے۔انھوں نے اس خیال کو رد کیا کہ قندوز میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکار کی موجودگی کے الزامات امریکی حکام سے بات چیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان الزامات کی تردید کر چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان افغانستان کی سلامتی اور قیامِ امن کے لیے مخلص ہے۔