البتہ شہادت کی عدم دستیابی کی بنا پر جس امر کو اختیار سماعت نہ ہونے کے مساوی قرار دیا جاسکتا ہے ،کی بنیاد پر چیلنج کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں عدالت ،چاہے وہ آئین کے تحت یا پاکستان آرمی ایکٹ کی سیکشن 84(a)کے تحت قائم ہو، کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے اختیار سماعت نہ ہے۔ امجد قدوس بنام چیئرمین نیب (2014 سپریم کورٹ منتھلی ریویو1567) کے کیس میں اس سوال کے جواب میں کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ءکے سیکشن 227(2)میں انکم ٹیکس افسران کو دیے گئے تحفظ کی موجودگی میں نیب آرڈیننس 1999ءکا اطلاق ہوگا یا نہیں، آپ نے قرار دیا،کہ دونوں قوانین میں پائی جانے والی non obstante clausesکی موجودگی کے باوجود نیب آرڈیننس کا اطلاق ایسے افسران پر ہوگا کیونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس ایک عام قانون ہے جبکہ نیب آرڈیننس ایک خاص قانون ہے۔ سی بھی معاشرے میں معاشی ترقی ،عوام کی خوشحالی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف ، امن اور قانون کی حکمرانی ہو۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر ادارہ اپنا کام آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق مکمل فرض شناسی کے ساتھ انجام دے۔ کسی بھی ادارے کی جانب سے اپنی مقررہ حدود سے تجاوز نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اسکے عوامی بہبود پہ شدید منفی اثرات پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں مختلف اداروں میں تقسیم کار کا اصول وضع کیا گیا ہے جس کے تحت ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنا نا ہوتا ہے۔