اسلام آباد (نیوزڈیسک)جوڈیشل کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی دھاندلی کے ڈرامے کو مکمل طور پر اور بھرپور طریقے سے پنکچر کر دیا ہے۔اب یہ طے پا گیا ہے کہ انتخابات سے پہلے ان میں دھاندلی کا منصوبہ اور مینڈیٹ چرانے کی سازش کبھی بنی ہی نہیں۔کوئی ایک بھی شخص انتخابات میں دھاندلی کی سازش کا ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا۔پی ٹی آئی چیف عمران خان کی چوائس کےججوں اور کمیشن نے کمیشن کے اسکوپ آف انکوائری میں موجود تینوں الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔ معروف تجزیاتی صحافی انصارعباسی کے مطابق اب دس لاکھ ڈالر کا سوال یہ ہے کہ آیا عمران خان وقار اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام افراد سے معافی مانگیں گے یا نہیںجن کا انہوں نے سرعام تمسخر اڑایا اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ 2013کے انتخابات میں دھاندلی میں سازش کا حصہ تھے۔کمیشن نے ان افراد پر شک کی پرچھائیں بھی نہیں ڈالی جن کا نام پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے مہینوں تک لیاجاتا رہا اور ان کی تضحیک کی جاتی رہی۔گزشتہ ایک برس کے دوران عمران خان اور پی ٹی آئی بہت سے حکومتی اداروں اور افراد پر پی ایم ایل کو انتخابات میں جتوانے کےلیے دھاندلی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔چند یسے افراد جن کی شہرت اچھی ہے ان پر بھی الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے نواز لیگ کے سربراہ اور وزیر اعظم نواز شریف سے رشوت اور دیگر مالیاتی فوائد حاصل کیے ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان افراد کےخلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت کارروائی کےلیے مطالبہ بھی کیاجاتا رہا۔وہ لوگ جن پر الزامات عائد کیے گئے ان میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے ریٹرننگ افسران کےذریعے ن لیگ کی حمایت میں دھاندلی کرائی لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورت اس الزام کو غلط قرار دیتی ہے۔اسی طرح اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور کمیشن کے دیگر ارکان بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والوں پر الزام تھا کہ انہوں نے نواشریف اور نواز لیگ کی حمایت میں دھاندلی کرائی لیکن جوڈیشل کمیشن نے اس الزام کو بھی خارج کر دیا۔سابق جج اور عدالت عظمیٰ کے جج خلیل الرحمٰن رمدے پر بھی آراوز کو کنٹرول کرنے اور نواز شریف کی تقریر کرانے کا الزام تھا ۔ اس قسم کے کسی الزام کو تین رکنی کمیشن کی جانب سے کوئی اہمیت و اعتبار نہیں ملا۔اس وقت کے عبوری وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی پر عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں 35پنکچروں میں مبینہ کردار کی وجہ سے قومی کرکٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور 35پنکچروں کا مطلب یہ تھا کہ 35حلقے ایسے تھے جن میں ن لیگ کے حق میں انتخابات کے نتائج حاصل کیے گئے لیکن کمیشن کو اس قسم کا کوئی پنکچر نہیں ملا۔چیئر مین پی سی بی کی حیثیت سے سیٹھی کی تقرری اور ان کی بھتیجی کی جانب سے نواز لیگ کے تکٹپ ر انتخاب لڑنے کو کمیشن نے کہا کہ ’اس یہ استنباط نہیں کیاجا سکتا(چہ جائیکہ اس سے بڑھ کے کچھ) کہ یہ سب کچھ انتخابات میں نواز لیگ کی مدد کے بدلے میں دی جانے والی مراعات کے دور پر کیاگیا‘۔عمران خان نےبارہا جیو اور جنگ گرو اور اس کے چیف ایگزیکٹو میر شکیل الرحمٰن کے خلاف بھی الزامات عائد کیا کہ وہ بھی2013کے انتخابات میں نواز لیگ کو منتخب کرانے اور پی ٹی آئی کوشکست دلانے کے بڑے کھیل کا حصہ تھے ۔جنگ گروپ کے چیف ایگزیکتو کو ننگی گالیاں دی گئیں ،غلط زبان استعمال کی گئی اور یہ سب کچھ بار بار کیا گیا۔جیو جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹو پر نواز شریف حکومت سےپیسے لینے کاالزام بھی عائد کیا گیا اور اب پی ٹی آئی کو دھول چاتنا پڑے گی۔ جنگ گروپ کے خلاف الزامات اتنے اوٹ پٹانگ تھے کہ ان میں سے کوئی بھی کمیشن کی رپورٹ میں تذکرے کے قابل بھی نہیں ہوپایا۔عمران خان نے جہاں ہر قسم کے الزامات عائدکیے وہیں کمیشن نے قرار دیا ہے کہ ’’ پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ ،پنجاب کی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پنجاب میں انتخابی عمل میں شریک دیگر افراد کے خلاف اثرورسوخ کے استعمال اورساز باز کے الزامات تخصیص کے کسی درجے میں نہیں آتے اور ریکارڈ پر موجود شواہد کی نسبت سے غیر ثابت شدہ رہےجبکہ سماعت کے اختتام کے قریب پہنچ کر پارٹیوں کی جانب سے ٹی اوآر تھری بی کے حوالے سے الزامات کی نہ تو تحریری دستاویزات کی صورت میں اور نہ ہی زبانی دلائل کی صورت میں سنجیدگی سے پیروی کی گئی۔جوڈیشل کمیشن کے اسکوپ آف انکوائری میں مندرجہ ذیل تین سوالات ہیں ۔3(a) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 2013کے انتخابات میں غیر جانبدارانہ، دیانتدارانہ ، صاف اور شفاف انداز میں قانون کے مطابق کرائے گئے ۔ 3(b) عام انتخابات2013 میں ساز باز اور اثرورسوخ کے استعمال کی جان بوجھ کر کسی نے منظم کوشش کی اور 3(c کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات2013کے نتائ مجموعی طور پر ٹھیک تھے اور رائے دہندگا ن کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ کی شفاف عکاسی کرتے ہیں۔جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تینوں سوالوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’’ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کوتاہیوں کو چھوڑ کر جن کا تذکرہ پہلے اس رپورٹ میں کیا جا شکا ہے ،ٹی اوآر تھری اے کے حوالے سے ریکارڈ پر موجود تمام شواہد کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2013کے انتخابات کا بڑا حصہ منظم طور پر اور شفاف طریقے سے قانون کے مطابق وقوع پذیر ہوا۔ٹی اور تھری بی ۔ انتخابات میں سازباز یا اثرورسوخ کے استعمال کے حوالے سے پارٹیوں کی جانب سے کسی تخصیصی درجے کے منصوبے کا انکشاف نہیں کیا گیا نہ ہی کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے مواد سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ریکارڈ پر موجود شواہد کی رو سے جن کے خلاف منصوبہ سازی کے الزامات عائد کیے گئے تھے وہ بھی غیر ثابت شدہ رہے۔ٹی او آر تھری سی: جب انتخابات کا پورا سیاق وسباق اس کی مجموعی بنیاد کی نسبت سے زیر غور آتا ہے توای سی پی کی جانب سے چند کوتاہیوں کے باوجود کمیشن کے سامنے موجود شواہد کی بنیاد پر یہ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ ووٹروں کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کی شفاف اور ٹھیک عکاسی نہیں کرتے