پیر‬‮ ، 27 اکتوبر‬‮ 2025 

مرکز اور سندھ میں بڑھتی کشیدگی

datetime 30  جون‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوزڈیسک) وفاقی حکومت کی جانب سے ایف آئی اے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے اختیارات میں کمی کے ممکنہ اقدام کے تناظر میں پیشگی کارروائی ہو سکتی ہے۔ جولائی میں رینجرز کے قیام میں توسیع کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔ اس فیصلے سے مرکز اور سندھ کے درمیان پہلے ہی سے تعلقات میں مزید کشیدگی کا اندیشہ ہے۔ معروف تجزیہ کارمظہرعباس کے مطابق ایف آئی اے کو کسی بھی ملزم کو 90 روز تک حراست میں رکھنے کا اختیار مل گیا ہے جو رینجرز اور ایف سی کو پہلے ہی سے حاصل ہے۔ بظاہریہ اقدام رینجرز کی جانب سے کرپشن مقدمات میں کارروائی پر تنقید کے بعد اُٹھایا گیا۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو بھی حراست میں لے سکتی ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی حساس اور اہم مقد ما ت میں کلیدی گواہ بننے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اختیارات ملنے کے بعد ایف آئی اے کے ہاتھوں کے ایم سی افسران کی حالیہ گرفتاریاں پہلا قدم تصور کی جاتی ہیں۔ صدر کی جانب سے تحفظ پاکستان آرڈیننس میں ترمیم کے بعد ایف آئی اے کو اضافی اختیارات حاصل ہوئے۔ اب اسے ملک میں کہیں بھی کرپٹ عناصر کو گرفت میں لانے کا اختیار مل گیا ہے لیکن اس کی توجہ سندھ پر مرکوز ہوگی۔ سندھ حکومت ہر چار ماہ بعد رینجرز کے اختیارات میں توسیع کرتی ہے، اسے 1989ء میں سول حکومت کی معاونت کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ جس کے عوض اسے سالانہ ڈھائی ارب روپے ملتے ہیں۔ سندھ میں کارروائی کے تناظر میں سابق صدر آصف زرداری کے متنازع بیان اور 4 جون کو رینجرز کی جاری کردہ پریس ریلیز کے بعد سے پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کو بھی سندھ سے ناانصافی برتنے کا الزام دیتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف بدھ کو کراچی آئیں گے۔ رینجرز کے اختیارات میں کمی کی کسی کارروائی کو روکنے کیلئے سیاسی اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ کراچی میں شدیدگرمی کی لہر کے نتیجے میں 1100 سے زائد افراد کی ہلاکت پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں پہلے ہی سے رسہ کشی ہو رہی ہے۔ سندھ حکومت ہلاکتوں پر مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اور کے الیکٹرک کی جانب سے بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کو مورد الزام ٹھہراتی ہے جبکہ وفاقی وزراء حکومت سندھ کی نااہلی کو الزام دیتے ہیں۔ کے الیکٹرک کے چیئرمین اور دو ڈائریکٹرز کے مستعفی ہونے کے بعد کراچی میں بجلی کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف ایک ایسے وقت کراچی آ رہے ہیں جب مرکز اور صوبے کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان دنوں آصف زرداری وزیراعظم سے خوش نہیں ہیں۔ وہ پہلے ہی سندھ میں لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بحران پر وزیراعظم کو خط لکھ چکے ہیں۔ آصف زرداری یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ خصوصاً وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حکومت سندھ کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور وہی سندھ کے بیورو کریٹس کے خلاف حالیہ کارروائیوں کی پشت پر ہیں۔ جیسا کہ ایف آئی اے اور رینجرز دونوں ہی وفاقی وزارت داخلہ کے تحت ہیں، لہٰذا کرپٹ بیورو کریٹس جن کی سیاسی وابستگیاں بھی ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی تیز ہو جائے گی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے شاہد حیات جو کراچی پولیس کے سربراہ بھی رہ چکے، انہیں اب زیادہ متحرک کردار مل جائے گا جو صوبائی حکومت کے حدود اختیار میں نہیں آئے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہد حیات کو اس وقت کراچی پولیس سربراہ کی حیثیت سے ہٹایا گیا جب مرکز اور اسٹیبلشمنٹ میں حلقوں نے ان کی کارکردگی کو سراہا تھا، لہٰذا اب لگتا ہے کہ وہ مرکز کا نمائندہ بن کر ایک مختلف کردار کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صوبائی حکومت کو نہیں بلکہ وزارت داخلہ کو جوابدہ ہوں گے۔ ایف آئی اے کو غیرمعمولی اختیارات دیئے جانے کی وجہ اہم اور حساس مقدمات کی تفتیش، منی لانڈرنگ کے مقدمات اور املاک سے متعلق کیسز بھی بتائی جاتی ہے۔ تازہ ترین اقدام رینجرز کے کردار پر تنقید کے بعد اُٹھایا گیا ہے۔ جس کے تحت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی پر چھاپے مار کر متعدد افسران کو گرفتار کیا گیا جن کے سندھ کی سیاسی شخصیات سے قریبی تعلق داریاں بتائی جاتی ہیں۔ ایف آئی اے اور رینجرز کو اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کے سربراہوں کی تلاش ہے جو بیرون ملک جا چکے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے انتہائی اہم رہنما کے فرنٹ مین محمد علی شیخ کی گرفتاری نے بڑی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ پیپلزپارٹی نے پارلیمانی فورم کو رینجرز کے اختیارات پر سوال اُٹھانے کیلئے استعمال کیا اور کئی پارٹی رہنمائوں نے اسے سیاسی مداخلت اور رینجرز کی جانب سے مینڈیٹ سے تجاوز قرار دیا۔ ایم کیو ایم اپنے کارکنوں کے خلاف کارروائی پر پہلے ہی سے رینجرز کے اقدامات کی ناقد ہے۔ رینجرز کے بعض اختیارات واپس لینے کا معاملہ سنجیدگی سے زیرغور ہے۔ ایسے کسی اقدام سے رینجرز اور حکومت سندھ میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔ کور کمانڈر کراچی یا ڈائریکٹر جنرل رینجرز سے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ڈی جی رینجرز نے اب تک وزیراعلیٰ کے خط کا بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جس سے مقامی اپیکس کمیٹی کے مختلف کرداروں میں کشیدگی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری دبئی میں بیٹھ کرہنگامہ خیز صورتحال کا جائزہ لےرہےہیں اور باخبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ریمارکس پر الطاف حسین کی تقاریر کے مقابلے میں کہیں زیادہ غصے میں ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو خدشہ ہے کہ مخصوص قوتیں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو ہدف بنا کر سندھ مخالف آپریشن کی کوشش کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت میں ذرائع نے ان خدشات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ کراچی ٹارگٹیڈ آپریشن صرف دہشت گردوں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ ایف آئی اے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں کیا کچھ کرتی اور اس کا اصل ہدف کون ہوگا؟

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سیریس پاکستان


گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…

اوساکا۔ایکسپو

میرے سامنے لکڑی کا ایک طویل رِنگ تھا اور لوگ اس…

سعودی پاکستان معاہدہ

اسرائیل نے 9 ستمبر 2025ء کو دوحہ پر حملہ کر دیا‘…

’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘

’’بکھری ہے میری داستان‘‘ محمد اظہارالحق کی…

ایس 400

پاکستان نے 10مئی کی صبح بھارت پر حملہ شروع کیا‘…