اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ سنجیدہ ہے، ایسے پارٹی سربر اہان بھی ہیں جو پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ بدھ کو چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل کورٹ اٹھارویں ،اکیسویں آئینی ترامیم اورفوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی سندھ ہائیکورٹ بارکے وکیل عابدزبیری نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں ارکان پارلیمنٹ نے اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دیا،آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کوئی بھی رکن پارٹی سربراہ کی اجازت کے بغیر ووٹ نہیں دے سکتا،جسٹس آصف سعید کھوسہ کہاکہ کسی رکن پارلیمنٹ نے یہ بیان نہیں دیا کہ اس نے اپنے ضمیر کیخلاف فیصلہ کر کے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا،پارلیمنٹیرینز کے پاس چوائس تھی کہ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دتیے یا استعفیٰ ،جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ پارلیمنٹیرینز نے پارٹی سربراہان کے دباﺅ پر ووٹ دیا،چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کیخلاف کسی رکن پارلیمنٹ نے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔