اسلام آباد(نیوزڈیسک)عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کوتحقیقاتی کمیشن میں تبدیل کرنے کی درخواست مستردکردی ،تحریک انصاف نے یہ استدعا جوڈیشل کمیشن کولکھے گئے ایک مراسلے میں کی تھی جبکہ جوڈیشل کمیشن نے قومی اسمبلی کے 12حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرزچھاپنے کے بارے میں فارم 15کاتمام تر یکارڈالیکشن کمیشن سے 24گھنٹوں میں طلب کیاہے ان حلقوں میں پنجاب سے سات ،کے پی کے کے تین ،سندھ سے ایک اوراسلام آباد کے ایک حلقہ شامل ہے ،فارم 15میں مسلم لیگ ن کے کامیاب 8ارکان اسمبلی ،تحریک انصاف کے دو،جے یوآئی (ف)اور جماعت اسلامی کابھی باترتیب ایک ایک حلقہ شامل ہے جبکہ چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فارم 15 سے غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز سے متعلق معاونت نہیں ملی ، ان کا کہنا ہے دھاندلی کی تحقیقات کر رہے ہیں ، یہ جوڈیشل کمیشن نہیں ، انکوائری کمیشن ہے ،تحریک انصاف کی درخواست سے مطمئن نہیں ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی زیر صدارت 2013ءکے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق انکوائری کمیشن کا اجلاس ہوا۔ سابق نگران وزیراعلیٰ بلوچستان غوث بخش باروزئی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور کمیشن کو بتایا کہ وہ عام انتخابات 2013 کے دوران نگران وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کہا انہوں نے عام انتخابات کو غیر شفاف قرار نہیں دیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ بلوچستان میں’استادی’ہوئی ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا استادی کا لفظ لکھنے کیلئے انگریزی کا لفظ نہیں ہے ، ہم استادی کے لفظ کو استادی ہی لکھ لیتے ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا یہ انکوائری نہیں جوڈیشل کمیشن ہے۔ اس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے تحریک انصاف کی درخواست سے مطمئن نہیں۔ یہ انکوائری کمیشن ہے ، جوڈیشل نہیں، دھاندلی کی انکوائری ہو رہی ہے۔ ہم نے اپنی کارروائی سیاسی جماعتوں کی معاونت سے آگے بڑھائی ہے۔ تحریک انصاف کی درخواست پر ملک بھر سے فارم 15 منگوائے گئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا متعدد پولنگ سٹیشنز کے فارم 15 نہیں آئے۔ بعض حلقوں میں بہت زیادہ اضافی بیلٹ پیپرز بھجوائے گئے ، ایک کروڑ 10 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔ بلوچستان میں کبھی 20 فیصد سے زیادہ ٹرن آو¿ٹ نہیں رہا ، عام انتخابات 2013 میں بلوچستان کا ٹرن آو¿ٹ 40 فیصد رہا۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے اپنے ریمارکس میں کہا فارم 15 سے انکوائری کمیشن کو کوئی معاونت نہیں ملی۔ پیر کے روز جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو نگرانی وزیر اعلی بلوچستان نواب غوث سے بی این کے وکیل شاہ خاور نے پوچھا کہ لاءاینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے آپ کا رابطہ کس سے رہتا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میرا رابطہ چیف سیکرٹری بلوچستان سے رہتا تھا ۔ وکیل نے سوال کیا کہ الیکشن کے بعد کی گئی پریس کانفرنس میں آپ نے کیا کہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے لاءاینڈ آرڈر کی سیچوئن کو کنٹرول کیا میں نے کہا تھا کہ انتخابات میں میرے بھائی کو ہرایا گیا تو وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ کی نظر میں یہ الیکشن فیئر تھے تو انہوں نے کہا کہ اس پر میں رائے نہیں دے سکتا ۔ فیئر الیکشن کروانا الیکشن کمیشن اور ایڈمنسٹریشن کا کام تھا ۔پی پی 21 سے میرے بھائی کو ہرایا گیا اس کی وجہ مقامی انتظامیہ اور چیف سیکرٹری کا براہ راست کردار تھا ۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی پریس کانفرنس میں دھاندلی زدہ الیکشن کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ میں نے کہا تھا کہ انتخابات میں استادی کی گئی ہے ۔ اس پر وکیل نے پوچھا کہ کیا گورنر نے آپ کو کوئی سمری بھیجی تھی تو بتایا کہ نہیں ۔ الیکشن کمیشن پابندی لگائی تھی کہ کوئی تبادلہ یا پوسٹنگ نہیں ہو سکتی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے بعد کوئی پوسٹنگ کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ۔ جب استادی کی گئی تو میں نے کچھ لوگوں کو ٹرانسفر کیا ۔ وکیل نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ کو لاعلم رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کو ٹرانسفر کیا تو نواب غوث نے بتایا کہ ہاں چھوٹے لیول پر ایسا ضرور ہوا ہے ۔ وکیل نے پوچھا کہ اعلی سطحی پوسٹنگ میں آپ نے اپنی رائے کو ترجیح دی یا آپ پر دباﺅ ڈالا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے چیف سیکرٹری کی ایڈوائس پر ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی ۔ وکیل نے پوچھا کہ این اے 269 کا آر او کون تھا تو بتایا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ میرا کام لا اینڈ آرڈر کو دیکھنا تھا آپ کے یہ سوالات