عدلیہ نے فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ مارشل لاء جنرل اعظم نے خود لگایا ۔ حامد خان نے کہا کہ سول حکومت نے انتظامیہ کے ذریعے فوج سے مدد کی درخواست کی تھی ۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ مارشل لاء بھی مشاورت سے لگایا گیا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ 1953 میں فوجی عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت بنائی گئیں ۔ 1953 میں ایک غلطی کی درستگی کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اگر دہشت گردی 200 سال جاری رہے تو کیا فوجی عدالتیں بھی اتنے عرصے تک قائم کرتی رہیں گی اور اس کا کیا جواز ہے ؟ حامد خان نے دنیا بھر میں مارشل لاء لگانے اور اس بارے تاریخ بیان کی ۔ بعض مارشل لاﺅں کو تحفظ دینے کی بھی کوشش کی گئی ۔ بھارتی سپریم کورٹ فیصلے کا بھی حوالہ دیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مارشل لاء اچھا ہے یا برا ۔ مارشل لاءتو مارشل لاءہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لاءکی کوئی ( وضاحت ) نہیں ہے چاہے وہ مکمل ہو یا ادھورا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے مارشل لاﺅں میں عدلیہ کو شامل نہیں رکھا گیا مگر 21 ویں ترمیم میں عدلیہ کو ساتھ رکھ کر گیپ پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حامد خان نے کہا کہ کوشش کی گئی کہ موجودہ آئین کے تحت مارشل لاء نہ لگایا جا سکے ۔ مارشل لاء کی وضاحت نظریہ ضرورت کے تحت بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ہر مقدمے کے اپنے حالات ہوتے ہیں ۔ انہوں نے جسٹس کرم الہیٰ چوہان کے فیصلے بھی پڑھ کر سنایا ۔ جس میں کہا گیا کہ تمام تر معاملات کا فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہو گا اور کوئی بھی معاملہ عدالت کے دائر کار سے باہر نہیں ہو گا ۔سول کورٹس کی طرح سے سپیشل ٹریبونلز قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ صرف آرٹیکل 245 کے تحت ہی سول اداروں کی مدد کے لئے فوج کو وفاقی حکومت طلب کر سکتی ہے اور جہاں مسئلہ ہے وہیں پر فوج کام کرے گی ۔