جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایسے رہنما نہ صرف منتخب کردہ نہ تھے بلکہ قابل بھی نہ تھے پیرزادہ نے کہا کہ ایک بچہ بھی پارٹی کا سربراہ بن سکتا تھا جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا ایک بھی ایک بیک گراﺅنڈ ہے ایک ملٹری ڈاکٹیٹر نے جب اقتدار سنبھالا تو نواز شریف کو سعودی عرب بھجوا دیا گیا الطاف حسین یوکے میں تھے اور بے نظیر کو بھی ملک میں نہ آنے دیا گیا یہ بھی ایک تاریخ ہے ۔ انہوں نے جان بوجھ کر کوشش کی کہ سیاسی جماعت ختم کی جائے پارٹی کے اندر گروپس بنائے گئے اور کنگ پارٹی بنائی گی جس نے انتخاب بھی جیتا پارٹی ہیڈز نہ تھے مگر ان کے لوگ پارلیمنٹ میں تھے شاید اسی وجہ سے 63 اے لایا گیا اور پارٹی سے باہر رہ کر پارٹی کو کنٹرول کررہے تھے پیرزادہ نے کہا کہ مجھے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کیا اگر آپ پارلیمانی کمیٹی رکھتے ہیں تو اس پارٹی کو لیڈر کیوں لیڈ نہیں کرتے ہم نے 1973ءمیں کوشش کی تھی کہ ترمیم کی جائے ملک جعفر نے بلایا ہم نے کہا کہ آپ نہیں بلا سکتے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا ہم نے لوگوں کو بتایا ہے کہ یہ جو ترمیم کی گئی ہے وہ صحیح ہے ۔ حامد خان نے کہا تھا کہ میں ایک قانون کے ساتھ سیاسی رہنما بھی ہوں ممکن ہے کہ سیاسی بیداری بڑھے آپ سب کچھ پارلیمنٹ کو نہ دیں کچھ اپنے پاس بھی رکھیں ۔ آپ بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔ پیرزادہ نے کہا کہ لیڈر شپ کو میچور نہیں ہونے دیا گیا حکومتیں ختم کی جاتی رہیں ہم اندھے نہیں ہیں آپ کا یہ ادارہ مستقل ادارہ ہے وہ میچور ہیں آپ کا ایک تجربہ ہے تبھی آپ سپریم کورٹ تک پہنچتے ہیں آپ کا ادارہ ایک بہترین ادارہ ہے مسلم افواج ایک منظم ادارہ ہے وہ بھی بہترین ادارہ ہے مگر آپ نے آئین کا تحفظ کرنا ہے۔