20ستمبر 1972ءمیں لیاقت باغ میں فیصلے کئے گئے بھٹو پر فائر کیا گیا وہ روس گئے کہ بھارت کو روکا جاسکے اور بتایا کہ پاکستان کی یہ صورتحال ہے آئین کہہ رہا تھا کہ بنگلہ دیش الگ سے ملک ہوگا رپورٹ میں 2000 ترامیم کیں اور اس پر باہمی اتفاق کیا گیا اس دوران اپوزیشن نے اہم کردار ادا کیا آپ والیم دیکھ سکتے ہیں ۔23مارچ 1973ءکو عوامی پارٹی نے لیاقت باغ میں اجلاس منعقد کیا وہاں بدقسمت واقع پیش آیا اور کئی لوگ مارے گئے ہاﺅس ڈیڈ ہوکر رہ گیا ہر کلاز اور آرٹیکل کی تبدیلی کے لئے ہاتھ اٹھا کر قراردادیں پیش کی گئیں 71 ممبران باقی رہ گئے تھے الگ سے 200ترامیم کی گئیں اور اپوزیشن کا انتظار کیا گیا بدقسمتی سے ہم سات افراد نے کام کیا اصل میں اکیس اپریل 1973ءکو آئین بن چکا تھا ٹکا خان نے کہا کہ جلد سے جلد آئین منظور کیا جائے اپوزیشن تو موجود ہی نہ تھی ہمارے پاس بلوچستان سے کوئی نمائندہ تک نہ تھا ۔ مولانا عبدالعزیز کو لورا لائی سے بلایا گیا مفتی محمود کو بلایا گیا مولانا عبدالعزیز نہیں پئے میں نے کہا کہ اگر یہ ترامیم منظور کریں تو کیا آپ ووٹنگ میں حصہ لیں گے تو حاصل بزنجو ، پروفیسر غفور احمد سمیت چار افراد نے 13 ویں ترمیم منظور کی سپیکر کے لیے تالیاں بجائی گئیں تمام اپوزیشن نے بھی ووٹ دیا دو کلاس رولز آئین کو ختم نہ کراسکے یہ کمپرومائز ڈاکومنٹ کیخلاف رہا بھٹو بھی اس میں تبدیلیاں لائے آپ لوگوں کی خواہشات کا جائزہ لے سکتے ہیں تمام تر اختیارات پارلیمنٹ کو دیئے گئے آرٹیکل 63 جمہوریت کے لئے لازم قرار دیا گیا پارلیمنٹ کو مکمل اختیار نہ دیں یہ عوامی خواہش ہے کہ آپ اپنا اختیار استعمال کریں ۔ وکلاءمجاز کیس میں ترمیم سامنے لائیں ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت تمام تر اختیارات پارٹی ہیڈز کو دے دی گئی اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہونے کے باوجود بھی بااختیار تھے اور باہر بیٹھ کر اسمبلی چلا رہے تھے ۔