ے کے ڈوگر نے کہا کہ چونکہ میں ججز کی کہکشاں میں ہوں وہ درخواست آپ یہاں منگوا لیجیئے ۔ انہوں نے 1996 کیس کا بھی حوالہ دیا ۔ قرآن پاک اور حدیث نبوی میں کہا گیا ہے میں وہ بتانا چاہتا ہوں ۔ اے کے ڈوگر نے ججز کے تقرر کے حوالے سے برطانوی طریقہ کار بارے بتایا۔ زیادہ تر پوزیشنز کا اشتہار دیا جاتا ہے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں اس عدالت کے نوٹس میں لاﺅ برطانیہ میں ججز کو کوئی کار‘ پروٹوکول اور ڈرائیور تک نہیں دیا جاتا زیادہ تر ججز انڈر گراﺅنڈ ریل گاڑیوں اور بسوں میں آتے ہیں‘ بھارت میں ججز کی تنخواہ 80 ہزار ہے اور زیادہ سے زیادہ حد ایک لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ ہمارے ہاں ایک ہائی کورٹ ججز کی تنخواہ 7 لاکھ روپے سے بھی زائد ہے جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اس بات کا آپ کے دلائل سے کیا تعلق بنتا ہے اے کے ڈوگر نے کہا کہ ججز کے تقرر کا طریقہ ہمارے ہاں غیر اسلامی ہے۔ جسٹس انور نے کہا کہ کیا اس وجہ سے ہم اس آرٹیکل کی ترمیم کو ختم کر دیں کہ ججز کی تنخواہیں زیادہ ہیں اور وہ کاریں اور پروٹوکول استعمال کر رہے ہیں۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ سب معاملات دیکھنا چاہئیں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ انگلستان کا نظام چاہتے ہیں یا اسلامی قانون کو۔ اگر اسلامی طریقہ چاہئے تو اس کے لئے اشتہار بازی اور یہ سب کیا ہے یہ تو اسلامی طریقہ سے نہیں ہے۔