اے کے ڈوگر نے کہا کہ آربیٹریری نامزدگی بغیر کسی نظام کے انتخاب کی ایک شکل ہے جو کہ غیر قانونی غیر آئینی کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی بھی ہے ۔ انہوں نے 2005 کے ایک مقدمے کا حوالہ بھی دیا ۔ ملازمین کے انتخاب میں چناﺅ کی پالیسی اور مستقل کرنے کا معاملہ آرٹیکل 2 اے کا کردار رکھا گیا ہے ۔ ریاست پاکستان میں تمام لوگوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا اور اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر مساویانہ پالیسی پر عمل کرنا ہوگا ۔ موجودہ پالیسی پک اینڈ چوز ( ذاتی پسند ) کی ہے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مجھے کہا تھا کہ آپ جج بنانے کے لئے نام بتائیں کہ جن کی عمر 50 سال سے زائد ہو ۔ میں نے کہا کہ میں کیا نام بتاﺅں ۔ یہ تو پک اینڈ چوز ہے ۔ یہ نظام ذاتی پسند اور اقرباءپروری کی مثال ہے ۔ تمام وکلاء جو 10 سال بطور وکیل ہائی کورٹ پریکٹس کر چکے ہیں انہیں برابری کی سطح پر ججز کے لئے نامزد ہونا چاہئے اور یہ ان کا حق ہے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن کیس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی اقدام جو آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے ۔ ہو آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ آرٹیکل 4 کے تحت تمام شہریوں پر مساویانہ انداز میں آئین و قانون لوگو کیا جائے گا ۔ این آر او کو امتیازی قرار دیا گیا اس لئے اس میں امتیازی سلوک رویہ رکھا گیا ۔ اگر ملک کے اندر 10 سے 20 ہزار وکلاء کا یہ حق ہے کہ ان کے درمیان کوئی فرق تھوڑی ہے سینئر جونیئر ضرور ہیں ان کو برابر یہ حق ہے کہ ان کو بھی جج کے لئے نامزد کیا جائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جج کی جو حقیقت ہے وہ بہت باوقار ہے آپ چپ رہیں کہ کسی کا حق نہیں جس کے سر پر ہما بیٹھ گیا وہی جج بن گیا ۔ ایک کلیم اور حق میں فرق ہے ۔ مجھے بھی اپنی قوم کی بطور جج خدمت کا حق ہے یہ میرا کلیم نہیں ہے ۔ چیف جسٹس صاحبان اگر ہزاروں وکلاءکو سرے سے جائزہ ہی نہیں لیتے وہ قانون کی خلاف ورزی ہے جو اب بھی ہیں وہ قانون سے ہٹ کر کر رہے ہیں ۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہاکہ آپ نے بڑی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی ۔ ا