اے کے ڈوگر نے کہا کہ اسلام پسند ناپسند کے خلاف ہے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جج کے تقرر کا اسلام میں کیا طریقہ کار ہے جسٹس جواد نے کہا کہ روایات سے بھی کوئی چیز اخذ ہو جاتی ہے آپﷺ کے خطوط سے بھی مدد لی جا سکتی ہے آداب ثانی بھی دیکھے جا سکتے ہیں شاہد اس میں موجود چیزیں نہیں آ سکتی ہیں وکیل کہاں سے آئے ہیں اسلام کے مطابق معاملہ قاضی کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہاں وکیل پیش نہیں ہوتے وہ سن کر فیصلہ کر دیتے ہیں یہ نہیں ایک طرف ایک وکیل اور دوسری طرف دوسرا وکیل کھڑا ہو اور دلئال دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک اردو میں فیصلہ تحریر کیا ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ وکیلوں کی مدد کے بغیر اچھا فیصلہ آیا۔ اے کے ڈوگرنے کہا کہ عبداللہ خان کیس میں جج کو حقائق کے مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دینا چاہئے وہاں وکیل مقرر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اسلام میں وکیل کی نہیں مفتی کی ضرورت ہے قاضی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ ان سے مشاورت کر سکتے ہیں۔ دارالمفتاح سے رابطہ کیا جا سکتا ہے جسٹس اعجاز چوہدری نے وکلاءکا سات سات دنوں تک گواہوں پر جرح کرنا اسلامی نہیں ججز کو جرح کا اختیار ہے اس نظام میں یہی تو خرابی ہے سول مقدمات میں 40‘ 40 سال لگ جاتے ہیں اے کے ڈوگر نے کہا کہ پسند ناپسند کا نظام ختم ہونا چاہئے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ اگر ججز کو مقرر کرتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند کو اپنائے گا تو یہ غلط ہو گا۔ ڈوگر نے کہا کہ نظام بدلنا چاہئے کئی پڑھے لکھے لوگ آج بھی ججز بننے سے محروم ہیں کیونکہ نظام نہیں ہے۔ اصل میں ہم غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں