دہشت گردی کے معاملے کو فرنٹ پر فیس نہیں کیا جا رہا ہے آئین کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ آپ کہتے ہیں لوگ بہت خوش ہیں اگر ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کھلی انکھوں سے دیکھنا ہو گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت حکومت فوج کو بلا سکتی ہے اور انسانیت کے دشمنوں کو مار سکتی ہے مسلح افواج کا تذکرہ 245 میں ہے آپ یہ کیوں طے کر رہے ہیں کہ فوج آپ کے نئے اقدامات سے خوش ہے انتظامی اختیارات ناکام ہیں سوات میں ناکامی ہوئی ہے۔ وفاق کو جن علاقوں میں اختیار ہے عدالتوں کو نہیں دیا گیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں آئین استعمال ہو رہا ہے آپ فوج پر کیوں مزید بوجھ ڈالے ہوئے ہیں انہیں ریاست کے معاملات نمٹانا ہیں آپ ان کو ان معاملات میں کیوں چلا رہے ہیں گوانتانا موبے میں کیا ہوا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ کس طرح کا ظلم ہے آخر یہ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ علاقہ غیر محفوظ ہو کر رہ گیا ہے وہ خود فوج سے کام لے رہے ہیں اور امریکہ خود کو سویلین ملک بھی قرار دیتا ہے کیوں فوجی جج نہیں کہ دنیا کے وہ سویلین کو سزا نہیں دے سکتا وہ صرف آرٹیکل 245 کے تحت ہی کام کرنا کا پابند ہے۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ 21ویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتیں آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ خالد انور نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے معطل ہے جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انصاف کرنا دو سالوں کے لئے بند کر دیا جائے۔ خالد انور نے کہا کہ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے جتنی بھی آپ گفتگو کر رہے ہیں ان حالات کے برعکس