میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘ یہ امریکا میں کاپر وائر کا بزنس کرتے تھے‘ بزنس بہت اچھا چل رہا تھا لیکن پھریہ اچانک سنگا پور شفٹ ہو گئے اور اب فیملی کے ساتھ وہاں رہتے ہیں‘ اسلام آباد میں ان کا چھوٹا سا گھر تھا‘ یہ اسے فروخت کرنے کے لیے یہاں آئے تھے اور تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس تشریف لے آئے‘ میں نے ان سے امریکا سے سنگا پور شفٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو جواب نے مجھے حیران کر دیا‘
ان کا کہنا تھا پوری دنیا میں سب سے زیادہ کاروباری تسلسل سنگا پور میں ہے‘ 36 کلو میٹر اور 50 لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں 35 سال سے بزنس اور ٹیکس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ میں نے 1985ء میں سنگاپور جانا شروع کیا‘ حکومت نے بزنس کے لیے جو پالیسی اس وقت بنائی تھی آج بھی وہی ہے‘ میں نے 1990ء میں جو ٹیکس دینا شروع کیا تھا‘ میں آج بھی اسی تناسب سے دے رہا ہوں‘ اس میں ایک فیصد بھی فرق نہیں آیا چناں چہ جو بھی شخص سنگاپور میں رہنا شروع کر دیتا ہے یا پھر کاروبار سٹارٹ کر لیتا ہے وہ اس کے بعد کسی ملک میں سیٹل نہیں ہو سکتا‘ مجھے انہوں نے یہ بتا کر مزید حیران کر دیا آپ اگر سنگا پور میں بزنس شروع کریں تو انشورنس کمپنیاں بزنس پالیسیوں کے تسلسل کی گارنٹی دیتی ہیں‘ آپ انشورنس لے سکتے ہیں کہ اگر حکومت نے اپنی بزنس پالیسی تبدیل کی تو نقصان انشورنس کمپنی برداشت کرے گی‘
آپ کو اس نوعیت کی انشورنس کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی‘ دوسرا سنگاپور جیسا لیونگ سٹینڈرڈ کسی دوسرے ملک میں نہیں ‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں مظاہرے نہیں ہوتے‘ ملک میں 1964ء میں 9 مئی جیسے آخری واقعات ہوئے تھے‘ 2008ء میں 20 لوگوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے مظاہرہ کیا‘ پولیس نے انہیں منتشر ہونے کا حکم دیا‘ یہ نہیں مانے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں ایسی خوف ناک سزائیں دی گئیں کہ اس کے بعد ملک میں دوبارہ کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ 2009ء میں برما کے وزیراعظم کے وزٹ کے دوران تین برمی لوگوں نے بوٹینکل گارڈن میں مظاہرہ کیا‘ حکومت نے تینوں کو گرفتار کیا‘ پیک کیا اور برما کے حوالے کر دیا‘ وہ دن ہے اورآج کا دن ہے سنگاپور میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ یہ ملک امن و امان میں بھی دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘
بیس سال سے کرائم فری ہے‘ اسلحہ‘ منشیات اور خواتین سے دست درازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں گند پھیلانے پر ہزار ڈالر جرمانہ ہوتا ہے‘ چیونگم پر پابندی ہے‘ آپ کو پورے ملک میں چیونگم نہیں ملتی اور اگر کوئی چیونگم چباتا ہوا مل جائے تو اسے دو ہزار ڈالر جرمانہ ہو جاتا ہے‘ سگریٹ نوشی کی جگہ مخصوص ہے‘ اس کے علاوہ سگریٹ پینا تو دور آپ اسے ہاتھ میں بھی نہیں پکڑ سکتے‘ زیبرا کراسنگ کے علاوہ گلی یا سڑک پار کرنے پر بھی ہزار ڈالر جرمانہ ہوتا ہے اور اگر مجرم یہ غلطی دوسری بار دہرائے تو جرمانہ ڈبل ہوتا جاتا ہے‘ گاڑیوں کا لائسنس دس سال کے لیے دیا جاتا ہے اور اس کی فیس لاکھ ڈالر تک ہوتی ہے‘
کوئی شخص اپنے گھر میں ایک سے زیادہ ملازم نہیں رکھ سکتا‘ وہ خواہ وزیراعظم یا کھرب پتی ہی کیوں نہ ہو‘ وزیر اور سیکرٹری کی تنخواہ سب سے زیادہ ہوتی ہے چناں چہ حکومت اہل ترین لوگوں کو وزارت اور محکمے دیتی ہے‘ وزیروں اور سیکرٹریوں کی تنخواہیں لاکھ ڈالر ماہانہ تک ہوتی ہیں‘ حکومت پورے ملک سے 25 وزیر اور 25 سیکرٹری تلاش کرتی ہے اور یہ لوگ پھر واقعی کمال کر دیتے ہیں‘ حکومت انہیں دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ دیتی ہے لیکن پھر ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ شاید یہی وجہ ہے سنگا پور کے وزراء غلطی کے بعد خودکشی کر لیتے ہیں‘ وزراء کو سرکاری ملازم نہیں دیے جاتے‘ یہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اوران کے لیے کوئی سگنل بند ہوتا ہے اور نہ پروٹوکول ملتا ہے تاہم وزیراعظم کے ساتھ پولیس کی ایک گاڑی ہوتی ہے اور بس۔
وہ صاحب بتاتے جا رہے تھے اور میں شرمندہ ہوتا جا رہا تھا‘ یہ 36 کلومیٹر کا چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کا تجارتی حجم پوری مسلم ورلڈ سے زیادہ ہے‘ اس کے فارن ایکسچینج ریزروز 364بلین ڈالرز ہیں جب کہ یہ رقم صرف دکھائی جا رہی ہے‘ اصل ذخائر دو ٹریلین ڈالر ہیں‘ سنگا پور میں ہر سال 140 بلین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری ہوتی ہے‘ یہ اب دوسرے ملکوں میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے سنگاپور بھارت کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے‘ اس نے یہاں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ دنیا میں سب سے مہنگی زمین سنگاپور میں ہے‘
دوہزار ڈالر سے لے کر 10 ہزار ڈالر تک ایک سکوائر فٹ زمین ملتی ہے اور اسے بھی آپ نیچے سے اوپر کی طرف بنا سکتے ہیں‘ 98 فیصد لوگ فلیٹس میں رہتے ہیں صرف دو فیصد لوگوں کے پاس گھر ہیں اور یہ گھر بھی انتہائی مہنگے ہیں‘ ایک ایک گھر کی مالیت 50 سے 100 ملین ڈالر ہوتی ہے‘ دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں کے دفتر وہاں موجود ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اس کی بزنس پالیسیوں میں تسلسل ہے اور ملک میں امن ہے‘ حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر بزنس اور صنعت کی پالیسی نہیں بدلتی‘ کاسٹ آف لیونگ بہت ہائی ہے لہٰذا دونوں میاں بیوی کو کام کرنا پڑتا ہے‘ اس وجہ سے پورا ملک ہنرمند ہے‘ آپ کو کوئی بھی شخص بے ہنر یا بے کار نہیں ملتا‘ گھروں میں کھانا نہیں بنتا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ میاں بیوی دونوں مصروف ہوتے ہیں چناں چہ کھانا کون بنائے گا‘
دوسرا پورے ملک میں فوڈ وینڈرز ہیں اور ان کا کھانا انتہائی صحت بخش اور سستا ہوتا ہے‘ سنگاپور میں خوراک میں ملاوٹ یا گند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا لوگ باہر کھانا کھاتے ہیں یا باہر سے خرید کر لاتے ہیں‘ پورے ملک میں ڈے کیئر سینٹرز ہیں‘ والدین صبح اپنے بچے ان میں چھوڑ جاتے ہیں اور شام کو واپس لے جاتے ہیں‘ بچوں کی صفائی اور کھانا ڈے کیئر سینٹرز کے ملازمین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ لوگ یہ ذمہ داری پوری طرح نبھاتے ہیں‘ وزیراعظم کا بچہ بھی سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرے گا چناں چہ ان کا سٹینڈرڈ بہت ہائی ہے‘ بچے اٹھارہ سال کے بعد خود مختار ہو جاتے ہیں لیکن انہیں رہنا والدین کے قریب پڑتا ہے‘ یہ اگر والدین سے دور رہیں گے تو ان کا فلیٹ مہنگا ہوتا چلا جائے گا اور یہ جتنا والدین کے قریب رہیں گے انہیں فلیٹ اتنا ہی سستا پڑے گا‘
حکومت انہیں سبسڈی دے گی‘ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں‘ والدین اکیلے پن سے بچے رہتے ہیں اور دوسرا یہ اپنے پوتوں اور نواسے نواسیوں کو وقت دیتے ہیں‘ اس سے حکومت کا ہیلتھ بجٹ کم ہو جاتا ہے‘ ملک چھوٹا ہے‘ زمین نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود ساڑھے تین سو پارکس ہیں‘ اپارٹمنٹ کی تمام عمارتوں کے اوپر بھی گارڈن ہیں‘ سڑکوں کے کناروں پر پودے لگے ہیں‘ آپ پورے ملک میں درخت نہیں کاٹ سکتے‘ پبلک ٹرانسپورٹ سستی اور پورے ملک میں دستیاب ہے لہٰذا لوگ ذاتی گاڑی کی بجائے یہ استعمال کرتے ہیں‘ ٹیکسیاں بھی سستی ہیں‘ ملک بزنس فرینڈلی ہے‘ آپ اگر کام کرنا چاہتے ہیں تو پورا سسٹم آپ کو سپورٹ کرے گا اور یہ سب کس کا کمال ہے؟ یہ صرف ایک شخص کا کمال ہے اور اس کا نام تھا لی کو آن یو۔
لی کو آن یو نے زندگی میں پانچ کام کیے اور جوہڑ سے ایک پورا ملک بلکہ پوری قوم ڈویلپ ہو گئی‘ اس کا پہلا کمال ایمان داری تھا‘ یہ بے انتہا ایمان دار تھا‘ پوری زندگی ایک پیسے کی بے ایمانی نہیں کی اور اس کے بعد اپنے گرد ایمان دار لوگ جمع کر لیے‘ یہ 23 مارچ 2015ء کو فوت ہوا‘ سنگاپور اس وقت دنیا کی بڑی اکانومی تھا لیکن اس اکانومی میں اس کی کوئی کمپنی‘ کوئی فیکٹری‘ کوئی بلڈنگ اور زمین کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا‘ وہ دنیا سے خالی ہاتھ واپس گیا‘ اس کا دوسرا کمال سادگی تھا‘ سنگاپور میں وزیراعظم کے لیے کوئی ذاتی جہاز نہیں‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی سنگاپور ائیرلائین میں سفر کیا‘ اسے اگر کسی ایسے ملک میں جانا پڑ جاتا تھا جہاں سنگاپور ائیرلائین نہیں جاتی تو یہ اس کے قریب ترین ملک میں جاتا تھا اور پھر وہاں سے اس ملک کی ائیرلائین سے سفر کرتا تھا‘
اس نے پوری زندگی صرف ایک بار سنگاپور ائیرلائین کا جہاز ذاتی طورپر استعمال کیا اور وہ بھی اس کی بیگم برطانیہ میں بیمار تھی اور بیگم کو لانے کے لیے اسے پورا جہاز استعمال کرنا پڑ گیا لیکن اس نے اس پر پوری قوم سے معافی مانگی‘ یہ فادر آف نیشن تھا مگر اس کے باوجود اس نے 1990ء میں اقتدار چھوڑ دیا اور وزیراعظم سے کابینہ کا سینئر وزیر بن گیا‘ اس کے بعد سنگاپور میں روایت پڑ گئی وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر کی حیثیت سے کام شروع کر دیتا ہے اوراسے اس پر ذرا برابر شرمندگی نہیں ہوتی‘ لی کو آن یو کے بعد اس کا بیٹا لی شین لونگ وزیراعظم بنا‘ لی بیٹے کی کابینہ میں سینئر وزیر رہا‘
بیٹے کی مدت ختم ہوئی تو یہ بھی لارنس وانگ کی وزارت عظمیٰ میں وزیر بن گیا جب کہ ہمارے ملک میں ایک بار کا صدر یا وزیراعظم کابینہ کا رکن بننا تو دور ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں پائوں رکھنا بھی پسند نہیں کرتا‘ لی کو آن کی پوری کابینہ سادہ تھی‘ وزراء بھی عام لباس پہنتے تھے اور اپنی گاڑی خود چلاتے تھے‘ تیسرا کمال میرٹ تھا‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ اس نے 1980ء کی دہائی میں سرکاری ملازمین اور وزراء کو کارپوریٹ سیکٹر سے زیادہ تنخواہیں دینا شروع کیا‘ یہ بہترین دماغ اور اہل ترین لوگ سلیکٹ کرتا تھا (جاری ہے)۔