وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی تھا اور گائوں کا نام اسولا تھا‘ اسولا دہلی کے مضافات میں گجربرادری کا ایک چھوٹا سا گائوں ہے‘ یہ گائوں فتح پوری بیری کے ہمسائے میں واقع ہے‘ وجے تنوار نے گائوں میں اکھاڑا بنایا اور نوجوانوں کو پہلوانی سکھانا شروع کر دی‘ گائوں کے نوجوان لمبے تڑنگے اور مضبوط کاٹھی کے مالک تھے‘ پہلوانی اور کبڈی گائوں کا پرانا شغل تھا‘ لوگ کسرت اور باڈی بلڈنگ میں بھی دلچسپی رکھتے تھے چناںچہ وجے تنوار کا اکھاڑا کام یاب ہو گیا‘
گائوں کے پچاس سے زائد نوجوانوں نے اکھاڑے میں کسرت شروع کر دی‘ میں یہاں وجے تنوار کی کہانی کو چند لمحوں کے لیے روک کر آپ کو دہلی کی معاشی اور سماجی زندگی میں آنے والی چند تبدیلیوں کے بارے میں بتائوں گا‘ ان تبدیلیوں کا وجے تنوار اور گائوں اسولا سے گہرا تعلق تھا‘ دہلی 1980ء کی دہائی تک مڈل کلاس لوگوں کا شہر تھا‘ شہر کے مضافات میں گائوں تھے‘ ان دیہات میں غربت اور افلاس کے انبار لگے تھے‘ اسی کی دہائی میں بھارت کی معیشت نے ’’ٹیک آف‘‘ کا آغاز کرنا شروع کیا‘ 1990ء کی دہائی میں ’’شائننگ انڈیا‘‘ کا آغاز ہو گیا‘ بھارت میں ہزاروں کی تعداد میں فیکٹریاں لگیں‘ سرمایہ کاری ہوئی‘ سٹاک ایکسچینج نے ترقی کرنا شروع کی‘ بھارتی روپیہ مضبوط ہوا اور بھارت ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا‘ معیشت کے اثرات دہلی تک بھی پہنچ گئے‘
دہلی دارالحکومت ہونے کے باوجود ایک چھوٹا شہر تھا‘ یہ شہر کھربوں روپوں کا دبائو برداشت نہ کر سکا اور شہر کی پراپرٹی کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ ہو گیا‘ حکومت کو احساس ہوا چناںچہ حکومت نے دہلی کے مضافات میں چار بڑے اور جدید شہر آباد کرنا شروع کر دیئے‘ یہ شہر گڑ گائوں‘ نائیڈو‘ نیونائیڈو اور فرید آباد ہیں‘ یہ انتہائی خوب صورت اور جدید شہر ہیں اور یہ تین تین رویہ سڑکوں کے ذریعے دہلی سے جڑے ہوئے ہیں‘ یہ شہر دیہات کی زمینوں پر آباد ہوئے‘ زمینیں مہنگی ہوگئیں اور وہ لوگ جو کبھی بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی پوری کرتے تھے وہ چار چار‘ پانچ پانچ سو کروڑ کے مالک بن گئے‘
شہر میں ارب اور کھرب پتیوں کی نئی کلاس نے جنم لیا‘ اس کلاس کے لیے مہنگے رہائشی علاقے بھی بنے‘ مالز بھی‘ شراب خانے بھی اور نائیٹ کلبز بھی۔ دنیا میں جہاں بھی نئے کروڑ اور ارب پتی جنم لیتے ہیں وہاں نئے مالز‘ سینما ہائوسز‘ شراب خانے اور نائیٹ کلب بنتے ہیں اور بعد ازاں وہاں سیکورٹی گارڈز کی ضرورت پڑتی ہے‘ انگریزی میں ان گارڈز کو بائونسرز کہا جاتا ہے‘ یہ بائونسرز جسمانی لحاظ سے خوب صورت‘ لمبے تڑنگے اور جوان ہوتے ہیں‘ آپ کو بائونسرز یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید جیسی سوسائٹیوں میں بھی ملتے ہیں‘ ان کا کام نائیٹ کلب‘ ریستوران‘ مالز‘ سینما اور باس کے دفتر کی صورت حال کو کنٹرول رکھنا ہوتا ہے‘ یہ ناپسندیدہ خواتین و حضرات کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں‘ بھارت میں بائونسرز کی باقاعدہ کمپنیاں ہیں‘ یہ کمپنیاں شادی بیاہ‘ برتھ ڈے اور دفتری تقریبات کے لیے عارضی بائونسرز بھی فراہم کرتی ہیں‘ ہم اب تنوار کی طرف واپس آتے ہیں۔
آج سے پندرہ سال قبل وجے تنوار اپنے اکھاڑے میں شاگردوں کو کسرت کروا رہا تھا‘ دہلی کے ایک پب کے مالک کو ایک رات کے لیے بائونسرز کی ضرورت تھی‘ وہ بائونسرز تلاش کرتا ہوا اسولا پہنچ گیا‘ وہ وجے کے اکھاڑے میں پہنچا‘ اس نے اس کا جسم اور پرسنیلٹی دیکھی اور اسے ایک رات کے لیے دس ہزار روپے کی پیش کش کر دی‘ وجے کے لیے یہ بڑی رقم تھی‘ اس نے یہ پیش کش قبول کر لی‘ وہ پانچ نوجوانوں کے ساتھ دہلی گیا‘ پب میں تقریب تھی‘ وجے نے اس تقریب کو سیکورٹی فراہم کی‘ مالک نے فی کس 10 ہزار روپے کے حساب سے 60 ہزار روپے ادا کر دیے‘ ان 60 ہزار روپوں نے اسولا کا مقدر کھول دیا‘ وجے کو بزنس کا نیا آئیڈیا آیا‘ اس نے ریسرچ کرائی‘ معلوم ہوا‘ دہلی میں ایسے درجنوں پب‘ ڈسکوز‘ مالز‘ سینما ہائوسز اور کارپوریٹ آفسز ہیں‘ ان تمام عمارتوں کو بائونسرز کی ضرورت ہے‘ وجے نے گائوں کے نوجوانوں کو جمع کیا‘
نئے کاروبار کے بارے میں بتایا‘ اکھاڑے کو جم میں تبدیل کیا اور نوجوانوں کو باڈی بلڈنگ کی تربیت دینا شروع کر دی‘ اسولا کے نوجوان جسم بنانے میں جت گئے‘ چھ ماہ بعد اسولا بائونسرز کی نرسری بن گیا‘ آج 25 برس بعد پورا اسولا گائوں بائونسرز بن چکا ہے‘ گائوں کے ہر گھر میں کم از کم ایک بائونسر موجود ہے‘ یہ بائونسر دہلی میں کام کرتا ہے اور تیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ لیتا ہے‘ گائوں کا ہر بائونسر اپنے نام کے ساتھ تنوار لکھتا ہے‘ آپ دہلی کے کسی نائیٹ کلب کے سامنے کھڑے ہو کر تنوار پکاریے‘ بائونسرز ’’جی‘‘ کہہ کر آپ سے مخاطب ہو جائیں گے‘ اسولا کے بائونسر انفرادی لحاظ سے بھی بہت دل چسپ لوگ ہیں‘ یہ سگریٹ اور شراب نہیں پیتے‘یہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے‘ یہ مرضی کی شادی کے خلاف ہیں‘ یہ والدین کی خواہش کے مطابق صرف ارینج میرج کرتے ہیں‘ یہ جواء بھی نہیں کھیلتے اور یہ کسی بھی جرم میں ملوث نہیں ہوتے‘ یہ روز ورزش کرتے ہیں‘ اسولا کے بائونسرز روزانہ 10 انڈوں کی سفیدی‘ تین لیٹر دودھ‘ درجن کیلے اور ایک ابلی ہوئی مرغی کھاتے ہیں‘ یہ لوگ گالی نہیں دیتے‘ ان لوگوں نے ’’بائونسر سماج‘‘ کے نام سے تنظیم بھی بنا رکھی ہے‘ یہ لوگ دہلی میں برانڈ بن چکے ہیں‘ شہر کی کمپنیاں جب بھی بائونسر کے لیے اشتہار دیتی ہیں تو یہ تنوار نام کے نوجوانوں کو ٹیسٹ اور انٹرویو کے بغیر ’’سلیکٹ‘‘ کر لیتی ہیں۔
یہ دل چسپ اور کارآمد تجربہ ہے‘ ہم ملک کے مختلف حصوں میں اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ پاکستان 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ ہمارے ملک میں ہر سال دس لاکھ نئے ڈرائیوروں‘ بیس لاکھ مستریوں‘ مزدوروں اور ترکھانوں‘ پانچ لاکھ موٹر مکینکس‘ دس لاکھ پلمبرز‘ الیکٹریشنز اور پینٹرز کی ضرورت پیدا ہوتی ہے‘ ہمارے ملک میں ہر سال 7 لاکھ نئے گھروں کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہے‘ دس برسوں میں سیکورٹی گارڈز کی تیس لاکھ آسامیاں پیدا ہوئیں‘ ہمارے ملک کے ہر شہر میں نرسوں‘ وارڈ بوائز‘ لیب ٹیکنیشنز اور کمپائونڈرز کی ہزاروں آسامیاں موجود ہیں‘آپ کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی اچھے ویٹرز نہیں ملتے‘ پورے ملک میں سینٹری ورکرز کی کمی ہے‘ آپ کو پرسنل اسسٹنٹس بھی دستیاب نہیں ہیں اور آپ آفس بوائے کی تلاش میں بھی برسوں خوار ہوتے ہیں‘ ہم اگر ملک میں ورکرز کی ضرورت کا تخمینہ لگائیں اور ملک کے مختلف علاقوں کو مختلف ٹریڈز کیلئے وقف کر دیں‘
ملک کے مختلف دیہات کو اسولا کی طرز پر ڈویلپ کریں تو ملک کی معاشی صورتحال میں بھی تبدیلی آ جائے گی‘ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا‘ امن وامان کی حالت بھی ٹھیک ہو جائے گی اور ملک میں پروفیشنل ازم بھی آ جائے گا‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے زیادہ تر ویٹرز مری اور آزاد کشمیر کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ حکومت یا علاقوں کے مخیر حضرات اگر ان دیہات میں ویٹرز کی ٹریننگ کا چھوٹا سا ادارہ بنا دیں‘ ان بچوں کو ٹریننگ دیں اور ایک سسٹم کے تحت انہیں نوکریوں کے لیے بھجوائیں تو انہیں معاوضہ بھی اچھا ملے گا‘ یہ نوکری بھی جلد حاصل کر لیں گے اور ملک میں پروفیشنل ویٹرز کا ٹرینڈ بھی شروع ہو جائے گا‘ ہم اگر اسی طرح کسی گائوں میں موٹر مکینک کا ٹریڈ شروع کرا دیں‘ گائوں کے بچے موٹر مکینک کا باقاعدہ کورس کر کے مارکیٹ میں آئیں تو اس سے ان کے خاندان کی معاشی حالت بھی بہتر ہو جائے گی‘ موٹر مکینک کے شعبے میں پروفیشنل ازم بھی آ جائے گا اور لوگوں کی نئی گاڑیوں پر تجربوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا‘ ہم اسی طرح زرعی علاقوں کو بھی مختلف اجناس میں تقسیم کر سکتے ہیں‘
جہاں چاول اگتا ہے اسے چاول کی معیشت بنا دیا جائے‘ جہاں گنا ہوتا ہے وہاں لوگوں کو گنے اگانے اور اس کی مصنوعات بنانے کی ٹریننگ دی جائے اور جہاں انگور ہو سکتا ہے وہاں انگور کے جوس اور سرکے کی صنعت پروان چڑھائی جائے‘ ہم کچھ نہ کریں تو بھی ہم دنیا کو ہیومین ریسورس ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک بنا سکتے ہیں‘ ہم دو تین شعبے لے لیں‘ اپنے نوجوانوں کو ان شعبوں میں بین الاقوامی سطح کی ٹریننگ دیں اور پوری دنیا کو ان شعبوں میں ٹرینڈ ہیومین ریسورس فراہم کرنا شروع کر دیں‘ دس پندرہ بیس برسوں میں ہمارے لوگوں کی حالت بدل جائے گی‘ فن لینڈ نے موبائل فون کی ون جی ٹیکنالوجی متعارف کروائی تھی‘ فن لینڈ نے صرف اس ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے پورا ملک چلا لیا‘ تائیوان نے 1981ء میں مائیکرو چپ بنانے کا ایک کارخانہ لگایا‘
آج تائیوان میں تین ہزار کمپنیاں مائیکرو چپ بنا رہی ہیں‘ آپ کمپیوٹر اور موبائل کنکشن کسی ملک اور کسی کمپنی کا استعمال کریں لیکن چپ اس میں تائیوان ہی کا ہو گا‘ تائیوان نے صرف ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے خود کو دنیا کے پندرہ ترقی پذیر ممالک میں شامل کر لیا‘ چین کے 34 صوبے ہیں‘ یہ تمام صوبے ایک ایک ٹیکنالوجی‘ ایک ایک شعبے کے ماہر ہیں‘کسی صوبے میں صرف فرنیچر بن رہا ہے‘ کسی میں صرف الیکٹرانکس کی اشیاء بنائی جا رہی ہیں اور کسی میں صرف ٹائلز کی فیکٹریاں ہیں‘ چین آج اسی ماڈل کی وجہ سے دنیا کی واحد معاشی سپر پاور ہے‘ اگر چین کر سکتا ہے‘ اگرتائیوان اور فن لینڈ کر سکتا ہے اور اگر اسولا کا وجے تنوار پورے گائوں کو بائونسرز کی فیکٹری بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے‘ ہم اپنے لوگوں کا مقدر کیوں نہیں بدل سکتے؟۔
شاید‘شاید ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔