رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

10  مارچ‬‮  2024

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ یقینا اس کہانی کی تفصیلات اخبارات‘ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پڑھ چکے ہیں لیکن میں اس کے باوجود آپ کو یہ دوبارہ سنائوں گا‘ ہمارے معاشرے میںاس طرح کی سینکڑوں کہانیاں بکھری پڑی ہیں‘ان میں سے چند ایک خبر بن جاتی ہیں تو معاشرے میں ہلچل مچ جاتی ہے‘ یہ ہلچل پانی کا بلبلہ ثابت ہوتی ہے اور چنددنوں کے بعد ذہنوں سے اوجھل جاتی ہے تاہم یہ خبر ایسی تھی جس نے ہر دل اور احساس رکھنے والے شخص کو جھنجوڑکر رکھ دیا تھالیکن مجھے یقین ہے ہم اب اسے بھول چکے ہوں گے‘رضوانہ جیسے کیس ہم جیسے لوگوں کے دلو ں پر دستک ضرور دیتے ہیں تا کہ ہم اپنے حصے کا دیا جلائیں اور معاشرے سے زیادہ نہ سہی کچھ دُکھ کم کر سکیں ۔

ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں یہ تو آپ کالم کے آخر میں پڑھیںگے لیکن پہلے رضوانہ کی کہانی مختصراً دوبارہ پڑھ لیں۔رضوانہ شمیم بی بی کی پانچویں نمبر کی بیٹی ہے‘شمیم بی بی اور اس کا شوہر ماہنگا خان سرگودھا میں رہتے ہیں۔ سرگودھا لاری کے پاس شمیم بی بی اور ما ہنگا خان اپنے دس بچوں کی پرورش کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں ‘شمیم بی بی ایک زمین دار کے گھر روزانہ برتن دھو کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں خاوند کا ہا تھ بٹاتی ہے جب کہ ما ہنگا خان روزانہ بازار جا کر مزدوری کرتا ہے۔شمیم بی بی زمین دار کے گھر جاتے ہوئے اور ماہنگا بازار جاتے ہوئے لوگوں کے بچوں کو یونیفارم پہنے سکول جاتے دیکھتے تو دل میںخیال آتا ہمارے بچوں کے نصیب میں ایسا ممکن ہے کہ وہ بھی سکول جائیں ۔ شمیم بی بی نے اس کا تذکرہ اپنے زمین دار مالک سے کیا‘ زمین دار نے شمیم سے کہا اسلام آباد میں میرے ایک جاننے والے صاحب ہیں ‘آپ اپنی ایک بیٹی ان کے ساتھ بھیج دیں‘وہ اپنے بچوں کے ساتھ اسے پڑ ھائیں گے اور اپنے گھر پر رکھیں گے‘ بچی گھر میں ان کا چھوٹاموٹا کام کاج کر دیا کرے گی۔

شمیم بی بی نے اپنی پانچویں نمبر کی بیٹی رضوانہ کو زمین دار کے ساتھ اسلام آباد بھیج دیا ‘ بچی اسلام آباد آئی تو شمیم بی بی کو ہر ماہ دس ہزار روپے ملنا شروع ہوگئے‘ شمیم بی بی کی کبھی کبھی رضوانہ سے بات بھی ہوجاتی تھی ‘رضوانہ فون پر امی سے واپس گھر آنے پر اصرار کرتی تھی‘شمیم کو زمین دار نے بتایا اسلام آباد میںان کے عزیز کہتے ہیں بچی کو واپس لے جائیں‘وہ وہاں رکنے کے لیے تیار نہیں‘ شمیم بی بی نے ایڈریس معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ اڈے پرآجائے‘ بچی وہاں اُس کے پاس پہنچا دی جائے گی‘شمیم بی بی بس پر بیٹھ کر اڈے پر پہنچی اور گھنٹے بھر کے انتظار کے بعد ایک کاراس کے پاس آ کر رکی‘ کار کے اندر سے ایک خاتون نے رضوانہ کودھکا دے کر باہر پھینکااور شمیم سے کہا سنبھالو اپنے گند کو اور پھرخاتون گاڑی لے کر فرار ہو گئی۔

شمیم نے رضوانہ کو اُٹھایاتوبچی کی چیخیں نکل گئی‘رضوانہ کا انگ انگ زخمی تھا‘ زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے اور زخموں سے بدبو آ رہی تھی۔ شمیم بیٹی کو مشکل سے بس میں بٹھا کر واپس سرگودھا کے لیے روانہ ہوگئی۔ بس میں دو ڈاکٹر سوار تھے جنہوں نے صورت حال دیکھی اور بچی کو ابتدائی طبی امداد دی۔بعدازاں بچی کو سرگودھا ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور پھر جنرل ہسپتال لاہور منتقل کر دیا گیا۔ اس بچی کو 7ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا گیاتھا‘ اس کی انگلیاں اور پسلیاں توڑ دی گئیں‘ اس کو سونے کے لیے کوٹھی کے برآمدے میں جگہ دی گئی اور 7ماہ کے بعد نیم مردہ حالت میں والدہ کے حوالے کر کے کہا گیا’’ سنبھالو اپنے گند کو‘‘۔ایک کہانی یہ ہے اور آپ اب ایک اور کہانی بھی پڑھیے۔

یہ کہانی ایمان سلیم کی ہے‘ ایمان سلیم کے والد فوت ہو جاتے ہیں‘ایمان کی عمر 9سال جب کہ اس سے ایک بڑی اور ایک چھوٹی بہن بالترتیب 11اور 6سال کی تھیں۔ ایمان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ والدہ کے کندھوں پرتین بچیوں کی پرورش کا بوجھ پڑتا ہے۔ والدہ محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جب یہ بھی ممکن نہیں رہتا تو یہ بچیوں کو لے کر اپنے والد کے پاس چلی جاتی ہے۔ وہ انہیں اپنے مکان کا ایک کمرہ دیتے ہیں۔ ایمان کی والدہ بھی یونیفارم پہنے بچوں کو دیکھتی ہیں تو اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کیا میری ایمان بھی پڑھ سکتی ہے۔ بچیوں کی والدہ کو ایک ادارے ریڈفائونڈیشن کا بتایا جاتا ہے جہاں تعلیم کے ساتھ تعلیمی ضروریات کی فراہمی مفت ہوتی تھی۔ ایمان کی والدہ نے اسے اس ادارے میں داخل کروادیا۔

ایمان محنتی بچی تھی‘ اساتذہ محبت کرنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے تھے۔ وہ پڑھتی رہی اور آگے بڑھتی رہی اور میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں 20ویں پوزیشن حاصل کر لی‘ اب ایمان پورے اعتماد سے ڈاکٹر بننے کی جانب گامزن ہے اوراگلے سال وہ میڈیکل کی طالبہ ہو گی۔رضوانہ اور ایمان کے حالات ایک جیسے تھے۔ دونوں کے خواب بھی ایک جیسے تھے بس فرق یہ تھا کہ رضوانہ غلط ہاتھوں میںچلی گئی اور یوں نہ صرف اس کے خواب چکنا چور ہو گئے بلکہ زندگی کی سانس بھی ختم ہوتے ہوتے رہ گئی جب کہ ایمان محفوظ ہاتھوں میں درد رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی اور خوابوں کی تکمیل کے لیے سفر پر گامزن ہو گئی۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے پاکستان میں 2کروڑ اسی لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں ایمان سلیم جیسے 46لاکھ یتیم بچے بھی شامل ہیں۔ ان سب بچوں کی زندگی رسک پر ہے اور یہ آئندہ سالوں میں رضوانہ کا روپ دھار کر چائلڈ لیبر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کے خوابوں کو کچل دیا جائے گا اور کسی کی خبر آئے گی اور کوئی خبر سے بھی محروم رہے گا۔ دوسری صورت میں ممکن ہے کچھ ایمان کے روپ میں جگمگائیں گے۔ رضوانہ کو ایمان کا روپ دینے میں پاکستان میں کئی ادارے‘ افراد اور تنظیمیں اپنے حصے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان اداروں میں ایک ادارہ ریڈ(READ) فائونڈیشن بھی ہے۔ میں رضا کارانہ طور پر اس ادارے سے گزشتہ کئی سالوں سے منسلک ہوں۔

میں نے اپنے گائوں میں رضوانہ جیسی بچیوں کی زندگی بچانے کے لیے ریڈ فائونڈیشن کی مدد سے سکول بنوایا اور اس سکول میں چند ماہ میں اڑھائی سو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ فائونڈیشن کے 400تعلیمی اداروں میں سوا لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ان میں بے شمار بچے رضوانہ جیسے بھی ہیں‘ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ‘اس مہینے کو اثیار اور قربانی کا مہینہ کہا گیا ہے‘ نیکی کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ مسلمان رمضان میں اپنی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ فطرانہ اور عطیات کے ذریعے خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ عطیات اگر غریب نادار اور یتیم بچوں کی کفالت کے لیے خرچ ہوں تو رضوانہ جیسی کئی بچیاں بچ سکتی ہیں اور یہ ایمان کی طرح اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتی ہیں۔

آپ اگر دل رکھتے ہیں اور اگر احساس کی ڈوری سے بندھے ہوے ہیں تو ریڈ فائونڈیشن کے ساتھ جڑ جائیں اور آپ ایمان سلیم جیسی بے شمار بچیوں اور بچوں کا مقدر بدل دیں گے۔ آپ ضرورت سے زیادہ زمین فائونڈیشن کے نام عطیہ کرسکتے ہیں‘آپ کے پاس اگر ضرورت سے زیادہ عمارت یا کوٹھی ہے تو آپ یہ ان لوگوں کے حوالے کرسکتے ہیں۔ فائونڈیشن آپ کے دیے گئے عطیے کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے گی۔ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو فائونڈیشن کے 13000یتیم بچوں میں سے کسی ایک بچے کو صرف 48000روپے سالانہ یعنی صرف 4ہزار روپے ماہانہ دے کر اسے رضوانہ بننے سے بچائیں اگر اللہ نے آپ کو عطا کر رکھا ہے تو آپ ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کا ذمہ لے سکتے ہیں۔

فاؤنڈیشن آپ کو آپ کے زیر کفالت بچوں کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گی اور ہر سال آپ کو ان کی پراگریس سے بھی آگاہ کرے گی۔ اگر آپ یتیم بچوں کے لیے قائم پول فنڈ میں اپنی زکوٰۃ ‘ صدقہ یا فطرہ دینا چاہیں تو رقم کی کوئی قید نہیں۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔میں فائونڈیشن سے رابطے کے لیے ان کے رابطہ نمبرز اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات درج کر رہا ہوں۔ آپ عطیات ‘ زکوٰۃ و صدقات کی رقم ان اکائونٹس میں جمع کروا کر فائونڈیشن کے نمائندے سے رابطہ کریں۔ وہ آپ کو فائونڈیشن اور بچے کی مکمل تفصیلات اور رقم کی رسید ارسال کریںگے۔آپ یقین رکھیں آپ کی رقم ضائع نہیں ہو گی۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…