فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار ہیں‘ یہ مختلف پارٹیوں سے ہوتے ہوئے آخر میں پاکستان تحریک نصاف میں آئے اور پھر یہاں ٹک گئے‘ عمران خان انہیںپسند بھی کرتے تھے اور ناپسند بھی‘ یہ کبھی خان صاحب کے انتہائی قریب ہو جاتے تھے اور کبھی دور‘ یہ کبھی ان کے ترجمان ہوتے تھے اور کبھی انہیں اٹھا کر آخری صف میں پھینک دیا جاتا تھا‘ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں‘ یہ عمران خان کو ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے تھے‘ یہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے سے بھی روکتے تھے‘ ان کا کہنا تھا اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کی ’’واٹر لو‘‘ ہے‘ جو بھی غلطی سے اس میدان میں اتر گیا اس کی ہار لازم ہے‘ وہ پھر زندہ سلامت واپس نہیں آیا‘ دوسرا یہ وضع دار خاندانی شخص ہیں‘
یہ اپنے سیاسی مخالفوں سے بھی بنا کر رکھتے تھے جب کہ پی ٹی آئی نے دو فہرستیں بنا رکھی ہیں‘ ہمارے لوگ اور ہمارے مخالف لوگ‘ یہ جماعت صدر جارج بش کی طرح لوگوں کو صرف ایک آپشن دیتی ہے‘ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے دشمن ہیں اور اگر خدانخواستہ دوسرے نے جواب نہ دیا یا ان کی آفر قبول کرنے سے انکار کر دیا تو پھر یہ اس کا نام لوہے کی دیوار پر لکھ دیتے ہیں اور دوبارہ اس کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتے‘ میں پی ٹی آئی کی اس خو کا وکٹم رہا ہوں چناں چہ میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ فواد چودھری ان سے مختلف تھا‘ یہ سب کے ساتھ بنا کر رکھتا تھا لہٰذا پارٹی انہیں بھی رگڑا لگاتی رہتی تھیں‘ میرے 2014ء میں پی ٹی آئی سے فاصلے پیدا ہوئے‘ میںنے عمران خان کے دھرنے کی مخالفت کی تھی‘ میرا خیال تھا آپ نے اگر ایک بار زبردستی‘ سڑکوں کے ذریعے کسی منتخب حکومت کو گرا دیا تو پھر ملک میں کوئی حکومت نہیں چل سکے گی‘ کوئی نہ کوئی جتھا آئے گا‘
وزیراعظم کو کھینچ کر نیچے اتارے گا اور حکومت ختم ہو جائے گی اور اس کھیل کے آخر میں ریاست بھی فارغ ہو جائے گی‘ پی ٹی آئی نے اس زمانے میں تازہ تازہ ’’گالی سکواڈ‘‘ بنایا تھا‘ انہوں نے میرا فون نمبر اس سکواڈ کے حوالے کر دیا اور پھر میں دس سال ان لوگوں سے گالیاں کھاتا رہا‘ میں نے اپنی آزادی رائے کی بڑی بھاری قیمت ادا کی لیکن عزت کیوں کہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے لہٰذا اس کے باوجود میرا کچھ نہیں بگڑا‘ میں آج بھی اپنی جگہ موجود ہوں جب کہ گالی سکواڈ ذلت اور بربادی کا رزق بن گیا‘ فواد چودھری نے اس مخالفت کے دور میں بھی میرے ساتھ رابطہ رکھا‘یہ پارٹی کی بھرپور مخالفت کے باوجود شو میں بھی آتے رہے اور ملاقاتیں بھی کرتے رہے اور ان کا یہ رویہ صرف میرے ساتھ نہیں تھا‘ یہ پی ٹی آئی کے تمام مخالفین سے رابطے میں رہتے تھے‘
ان میں سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی شامل تھے‘ میڈیا پرسنز بھی‘ بیوروکریٹس بھی اور فوجی قیادت بھی لہٰذا اقتدار سے فراغت کے باوجود آج بھی لوگ ان کاحترام کرتے ہیں‘ پی ٹی آئی میں بدقسمتی سے فواد چودھری جیسے لوگ بہت کم ہیں‘ آپ اگر فہرست بنائیں تو عامر ڈوگر‘ علی محمد خان اور اسد قیصر کے بعد یہ فہرست ختم ہو جاتی ہے‘ نئے لوگوں میں ڈاکٹر ہمایوں مہمند اور شعیب شاہین شامل ہیں‘ یہ لوگ مخالفت کو صرف مخالفت تک رہنے دیتے ہیں‘ اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں کرتے چناں چہ میڈیا اور سیاست دونوں جگہوں پر ان کا احترام موجود ہے جب کہ باقی لوگ لوہے کی گردن اور پتھر کے چہروں کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں‘ آپ ایک بار ان کے ساتھ بات کر کے دیکھ لیں‘ آپ پوری زندگی اپنے اوپر لعنت بھیجتے رہیں گے اور شاید یہ اس رویے کا نتیجہ ہے یہ لوگ مشکل وقت میں مکمل طور پر اکیلے رہ گئے‘
آپ اسد عمر‘ عمران اسماعیل‘ علی زیدی‘ عامر کیانی‘ فرخ حبیب‘ فیصل جاوید‘ اعظم سواتی اور مراد سعید کو دیکھ لیں‘ کیا ان کے زوال کے بعد کسی نے ان کے لیے آواز اٹھائی‘ کسی نے ان کا نام لیا‘ فرخ حبیب آج فیصل آباد میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ‘ یہ باہر نہیں نکلتا اور اگر یہ کسی جگہ چلا جائے تو لوگ اس سے سلام لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘لوگ اب اس کی عزت کیوں کریں؟ یہ اقتدار کے زمانے میں ٹھیک ٹھاک تکبر کے ہیضے میں مبتلا ہو گیا تھا‘ سیدھا آسمان کو ہاتھ مارتا تھا لہٰذا آج اسے زمین پر بھی پناہ نہیں مل رہی‘ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے‘ اس کی نعمتوں اور نوازشات کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اچھے وقتوں میں دوسروں کے ساتھ بہت اچھا ہو جانا چاہیے‘ یہ عقل مندی بھی ہے اور بہترین حکمت عملی بھی ورنہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور جب وقت بدلتا ہے تو پھر انسان کا اپنا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور انسان زندگی کے لق و دق صحرا میں اکیلا رہ جاتا ہے‘ بڑا پرانا فارمولا ہے اگر اقتدار‘ شہرت اور دولت کے زمانے میں آپ کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہورہا تو پھر آپ جان لیں آپ اچھے انسان نہیں ہیں اور آپ کا انجام عبرت ناک ہو گا۔
فواد چودھری ایک اچھا انسان ہے‘ اس نے اچھے وقت میں لوگوں کے ساتھ بنا کر رکھی‘ اس نے آسمان کی چادر کھینچنے کی حماقت نہیں کی لہٰذا لوگ آج بھی اس کا احترام کرتے ہیں اور میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں‘ یہ اس وقت نیب کی حراست میں ہے‘ اس پر تین انتہائی دل چسپ کیس بنائے گئے ہیں‘ پہلا کیس ملتان کے ایک سکول سے پائپ چوری کا ہے‘ چودھری صاحب پر الزام ہے انہوں نے گورنمنٹ پرائمری سکول خیرپور بھٹہ سے ٹونٹی اور پائپ چوری کیے‘ آپ ذرا تصور کیجیے جہلم کہاں ہے اور ملتان کہاں ہے اور فواد چودھری جیسے شخص نے370کلو میٹر دور جا کر سکول سے تین ہزار روپے کے پائپ چوری کرنے تھے‘ دوسرا مقدمہ‘ فواد چودھری نے اپنے حلقے کے ایک گھر میں ڈکیتی کی اور وہاں سے چار عدد چارپائیاں اور یوریا کھاد کی بوری چوری کر لی اور تیسرا مقدمہ ہے فواد چودھری نے اپنے حلقے میں 16 ارب روپے مالیت کی دورویہ سڑک کی تجویز دی‘آپ ذرا غور کیجیے‘
فواد چودھری نے صرف تجویز دی اور یہ اس کا جرم بن گیا‘ کیس کی حقیقت یہ ہے اس سڑک کا کبھی ٹینڈر ہی نہیں ہوا‘ حکومت پنجاب نے سڑک کی تعمیر کا ٹھیکا ایف ڈبلیو او کو ٹینڈر کے بغیر دیا تھا اور یہ ادارہ کیوں کہ حکومت کا اپنا ادارہ ہے اور اس میں کوئی پرائیویٹ پارٹی شامل نہیں ہوتی لہٰذا اس میں کرپشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ دوسرا اس پراجیکٹ کو بھی حکومت نے روک کر اس کی مالیت 16 سے 23 ارب روپے تک پہنچا دی‘ نیب آج کل فواد چودھری سے تحقیقات کر رہا ہے آپ نے اس سڑک کی تجویز کیوں دی تھی؟ سوال یہ ہے اگر سیاست دانوں نے سڑکوں‘ پلوں‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی تجاویز نہیں دینیں تو پھر آخر ان کا کام کیا ہے؟ دوسرا اگر ریاستی اداروں کا کام سیاسی مخالفوں کو رگڑا لگانا ہے تو پھر ان اداروں کو ریاستی ادارے کیوں کہا جاتا ہے‘ آپ انہیں مافیاز اور خرکار کیمپوں کا نام دے دیں اور جو حکومت ختم ہو جائے آپ اس کے لوگوں کو پکڑیں اور کیمپوں میں لے جائیں اور جب دوبارہ حکومت کا وقت آئے تو آپ انہیں نہلا دھلا کر دوبارہ کرسی پر بٹھا دیں‘ ملک میں عملاً 50 سال سے یہی ہو رہا ہے‘
ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور پھر سزائے موت کے قیدی تھے‘ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کتنی بار جیل گئے اور کتنی بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھے‘ میاں شہباز شریف 2022ء تک ملزم تھے‘ یہ نیب کی حوالات میں زمین پر سلائے جاتے تھے لیکن یہ اب دوسری بار وزیراعظم بن چکے ہیں اور پورا سسٹم انہیں سلام پیش کر رہا ہے‘ رانا ثناء اللہ پر ہیروئن فروشی کا مقدمہ بنا تھا اور پھر یہ وزیر داخلہ بن گئے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والا محکمہ ان کا ماتحت ہو گیا‘ صدر آصف علی زرداری پر 2016ء میں کرپشن کے مقدمے بنائے گئے‘ یہ اب دوسری بار صدر بن رہے ہیں اور آج عمران خان بھی جیل میں ہیں اور یہ کل دوبارہ وزیراعظم ہوں گے‘ مجھے یہ بھی یقین ہے فواد چودھری بھی باہر آئیں گے اور ایک بار پھر وزارت کا حلف اٹھائیں گے اور اس بار یہ وزیر داخلہ ہوں گے تو پھر سوال یہ ہے ان مقدموں کا کیا فائدہ؟ پوری دنیا جانتی ہے فواد چودھری کو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل نہ ہونے کی سزا دی گئی‘ دوسرا سسٹم انہیں الیکشن سے بھی روکنا چاہتا تھا‘
یہ دونوں کام اب ہو چکے ہیں‘ الیکشن بھی ختم ہو گئے ہیں اور استحکام پاکستان پارٹی بھی دفن ہو چکی ہے چناں چہ اب فواد چودھری پر رحم کریں اور اور ان کی جان چھوڑ دیں‘ یہ اپنی ہمت اور جرم سے زیادہ سزا بھگت چکا ہے‘ دوسرا ریاست کو منصف ہونا چاہیے ظالم نہیں‘ یہ اگر میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم اور آصف علی زرداری کو صدر بننے کی اجازت دے سکتی ہے تو پھر فواد چودھری کا کیا قصور ہے؟ اس نے آخر کتنی چارپائیاں‘ کتنی کھاد اور کتنے پائپ چوری کر لیے ہیں؟ اسے بھی معاف کر دیں اور آخری بات عمران خان نے 8 فروری کے الیکشنز میں ثابت کر دیا عوام اس کے ساتھ ہیں‘ لوگ اسے وزیراعظم اور پی ٹی آئی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم جتنی جلد یہ حقیقت بھی مان لیں گے ملک کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا‘ یہ مصنوعی نظام ڈیلیور نہیں کر سکے گا چناں چہ ریاست اسے بچانے کے لیے اپنا وقت اور انرجی ضائع نہ کرے‘ آخر میں کسی کے ہاتھ بدنامی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔