مجھے دو دن قبل سید محمد عمران نے ساربون فرانس سے اپنی اور اپنی ڈگری کی تصویریں بھجوائیں‘ یہ ماشاء اﷲ فرانس کی دوسری بڑی یونیورسٹی سے نیٹ ورکنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکا ہے۔
اس کے والدین اور علاقے کے لوگ یقینا خوش ہوں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ میانوالی کے گاؤں نورنگا کا پہلا پی ایچ ڈی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا عمران سید اب تیسری مرتبہ پھر پاکستان آئے گا؟ میرا نہیں خیال یہ آئے گا اور یہ اگر آنا بھی چاہے تو میں اسے مشورہ دوں گا ’’تم یورپ یا امریکا میں جاب کرو اور مطمئن اور شاد زندگی گزارو‘‘ میرا خیال ہے یہ میرا مشورہ مان لے گا‘ اب تک اس کا ملک کی خدمت کا کیڑا یقینا مر چکا ہوگا۔
میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو محمد عمران سید کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ عمران سید نے بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ کیا‘ کلاس میں سلور میڈل لیا اور یہ ویلز (برطانیہ) چلا گیا‘ اس نے وہاں سے موبائل اینڈ سیٹلایٹ کمیونی کیشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور یہ اس کے بعد یورپین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ای آئی ٹی) کے اسکالر شپ پر برلن اور پیرس چلا گیا۔
اس نے وہاں سے بھی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور آرکی ٹیکچر میں ڈگریاں لے لیں چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں یہ ٹیلی کام میں ایک پڑھا لکھا شخص ہے‘ محمد عمران سید کے والد اسلام آباد کے ایک یورپی فارن مشن میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
عمران سید نے جولائی 2012میں برطانیہ کے شہر ویلز میں گلیمورگ یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ موبائل اور سیٹلایٹ کمیونی کیشنز میں ماسٹر ڈگری لی‘ان پروجیکٹس کا مرکزی خیال ٹیلی کام کا چوتھا سپیکٹرم تھا‘اس نے اس پروجیکٹ میں اعزاز حاصل کیا۔
اس سے قبل اس نے 2010 میں بحریہ یونیورسٹی سے ٹیلی کام انجینئرنگ میں گریجویشن کی تھی اور اس نے 3.75 سی جی پی اے کے ساتھ اپنی جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی‘ اس نے سیکنڈری اور اس کے بعد کی تعلیم اسلام آباد ماڈل کالج سے حاصل کی تھی‘ یہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔
والدین میانوالی کے گاؤں نورنگا سے اسلام آباد آئے تھے‘نورنگا پنجاب کے سب سے زیادہ نظرانداز علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے‘ 2012کے بعد زمین کے مسلسل کٹاؤ کی وجہ سے اس کا گاؤں مکمل طور پر دریا برد ہوگیا ‘ ان کے بزرگوں کی قبریں تک پانی میں بہہ گئی ہیں‘ عمران سید کو بچپن سے بیرون ملک تعلیم کا شو ق تھا۔
اس نے بی ایس کیا تو اس کی والدہ نے اپنا تمام زیوربیچ دیا‘ان کے پاس پانچ مرلے کا ایک مکان تھا‘ والد نے دس منٹ میں وہ گھر بھی بیچ دیا‘ عمران سید کی پوری فیملی کا واحد سورس آف انکم والد کی تنخواہ تھی‘ ان کا خاندان آج بھی اسی سورس پر پل رہا ہے مگر اس کے والدین سمجھتے تھے بچوں کی تعلیم پر کی گئی سرمایہ کاری ان کی سب سے بہترین سرمایہ کاری ہے۔
عمران سید کی بڑی ہمشیرہ نے ایجوکیشن میں ماسٹر ڈگری لے رکھی ہے‘چھوٹی بہن نے ریاضی میں فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ماسٹر ڈگری اور ڈبل میتھ کے ساتھ گریجویشن کی جب کہ اس کے چھوٹے بھائی محمد عابد سید نے چین سے زراعت میں پی ایچ ڈی کی‘ عمران سید دہری شہریت کا حامل تھا ‘یہ جب تک چاہتا یہ یورپ میں رہ کر کام کر سکتا تھالیکن اس کے باوجود یہ جولائی 2012میں اپنے وطن کی خدمت کے لیے پاکستان واپس آ گیا‘ اس نے پاکستان آ کر تقریباً ہر ٹیلی کام کمپنی میں درخواست بھیجی‘ملک میں 300 کمپنیاں ہیں۔
یہ سب کے پاس گیا لیکن کسی کمپنی نے درخواست موصول ہونے کی اطلاع تک دینا گوارہ نہیں کیاتاہم اسے کچھ نجی کمپنیز سے کالز آئیں لیکن انھوں نے اسے نوکری دینے سے اس وجہ سے معذرت کرلی کہ انھیں تجربہ کار انجینئرز کی ضرورت تھی‘عمران سید یہ جان کر حیران رہ گیا دنیا کا کوئی شخص نوکری کے بغیر تجربہ کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
اس نے انھیں پیش کش کی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے بہت کم تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوںمگر اسے کسی نے گھاس نہیں ڈالی‘ اس نے کئی حکومتی اداروں میں بھی درخواست بھیجی لیکن اسے ’’پینڈو‘‘ ہونے کی وجہ سے پذیرائی نہ مل سکی‘ یہ شاید اس وجہ سے تھی کہ یہ کسی اہم شخصیت یا کسی ممبر قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی یا سینیٹر کا بیٹا نہیں تھا یا پھر یہ کسی جج یا جرنیل کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔
بہرحال اس کے دوستوں نے مشورہ دیا اور یہ اپریل 2013میں نوکری کی غرض سے برطانیہ چلا گیا‘ اس نے اپلائی کیا اور اسے سویڈن میں برطانیہ کی صف اول کی ٹیلی کام کمپنی الکاٹیل نے کنٹریکٹ پر ’’گریجویٹ اسمال سیل انجینئر‘‘ کے طور پر نوکری دے دی لیکن بدقسمتی سے سال بعد کمپنی فروخت ہو گئی اور تمام ملازمین فارغ کر دیے گئے۔
یہ دسمبر 2014میں ایک بار پھر پاکستان واپس آ گیا اور مختلف اداروں کو پھر سے درخواستیں بھیجنا شروع کر دیں‘ اس نے ٹیلی کام سیکٹر میں نوکری حاصل کرنے کے لیے مختلف اداروں کو 2500 درخواستیں بھیجیں لیکن کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا‘ اس عرصے میں ایک بڑی شخصیت کی مہربانی سے اسے ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی میں مارچ 2015 سے لے کر مئی 2015 تک تین ماہ کے لیے 7500 روپے کے معمولی معاوضے پرانٹرن شپ اور دو ماہ کے لیے تنخواہ کے بغیر نوکری ملی۔
اس میں بھی روزانہ 75 روپے کھانے کے کٹ جاتے تھے اور یہ تین ماہ بعد یہاں سے بھی فارغ ہوگیا‘ یہ اب آہستہ آہستہ پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کی امید کھو تا جا رہاتھااور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیاتھا ’’میں نے شاید ٹیلی کام سیکٹر کا انتخاب کر کے غلطی کی یا ہمارے ملک کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے‘سسٹم جان بوجھ کر پڑھے لکھے لوگوں کو باہر دھکیلتا ہے‘‘یہ اسی گومگو کی کیفیت میں تھا کہ ستمبر 2017 میں اسے ٹیلی کام میں ایک اور ماسٹر کے لیے یورپین اسکالر شپ مل گیا۔
اس نے ایک سال برلن (جرمنی)اور دوسرا سال رینیز (فرانس) میں گزارنا تھا‘ اس نے اکتوبر 2017 میں نمل یونیورسٹی سے جرمن زبان کا چند ہفتے کا کورس کیا اوریہ جرمنی چلا گیا‘ برلن میں اپنا پہلا سال مکمل کیا اور دوسرے سال کے لیے فرانس کی مایہ ناز ساربون یونیورسٹی میں داخل ہو گیا ‘ اﷲ کا شکر ہے اس نے اپنی دوسری ماسٹر ڈگری بھی کام یابی سے مکمل کر لی‘یہ اس کے بعد ایک بار پھر پاکستان آیا مگر اسے اس بار بھی ملازمت نہ ملی اور یہ اپنے والد کی گاڑی کو کریم پر چلا کر گزارہ کرتا رہا‘ اس نے اس دوران ایک مایہ ناز ٹیلی کام کمپنی میں بغیر تنخواہ کے چند ہفتے کے لیے کام بھی کیا تھا۔
اس نے اس زمانے میں مجھے خط لکھ کر پوچھا تھا ’’میرے والدین نے اپنی ساری جمع پونجی میری اور میرے بہن بھائیوں کی تعلیم پر لگا دی اور میں پوری زندگی یہ سوچ کر پڑھتا رہا میں اپنے ملک کی خدمت کروں گا‘ میں یہ سوچ کر بار بار پاکستان بھی آتا رہا‘ مجھے دنیا بھر کی یونیورسٹیاں باصلاحیت سمجھتی ہیں۔
یہ مجھے بار بارا سکالر شپ بھی دیتی ہیں‘ میں اپنی تعلیم اور صلاحیت میں بھی اضافہ کر لیتاہوں لیکن میں جب بھی کوئی اچھی ڈگری لے کر واپس آتا ہوں تو درخواستیں دینے کے علاوہ میرا کوئی کام نہیں ہوتا‘مجھے ساڑھے سات ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ کام نہیں ملتا اور یہ کام بھی دو تین ماہ بعد ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اس کے باوجود ڈٹا ہوا ہوں‘ میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان آؤں گا‘ پھر درخواستیں دوں گا‘ مجھے نوکری مل گئی تو سو بسم اللہ نہ ملی تو میں والد کی گاڑی کریم کے ساتھ چلالوں گا اور اپنا دال دلیہ کر لوں گا مگر ہمت نہیں ہاروں گا‘ میں کوشش کرتا رہوں گا‘ میں آپ سے یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں۔
ہمارے وزیراعظم (عمران خان) اس دور میں یہ وزیراعظم تھے، روز ٹیلی ویژن پر کہتے ہیں پاکستان کے باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو باہر کی نوکریوں کو لات مار کر پاکستان آنا چاہیے‘ ہم لات مار کر آ بھی جاتے ہیں لیکن جب پاکستان پہنچتے ہیں تو نوکریوں کی تلاش میں اپنی لاتیں گھساتے رہتے ہیں‘ ہم یہ لاتیں گھساتے گھساتے ختم ہو جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتاہے؟ اور ہمارے وزیراعظم اگر ہمیں باعزت روزگار نہیں دے سکتے تو پھر یہ ہمیں واپس کیوں بلاتے ہیں‘ یہ دنیا بھر میں بکھرے میرے جیسے نوجوانوں کو پاکستان کی خدمت کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟‘‘۔میرے پاس اس وقت بھی اس کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا اور یہ اگر آج بھی مجھ سے یہ پوچھے تو میرا سیدھا سادا جواب ہو گا ’’میں نہیں جانتا‘‘ بہرحال قصہ مختصر یہ اس زمانے میں ایک بار پھر باہر چلا گیا اور یہ اب ڈاکٹر محمد عمران سید ہو چکا ہے اور یہ اس ڈگری کے ساتھ تیسری یا پھر چوتھی بار پاکستان واپس آنا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے شاید اب پاکستان بدل گیا ہو؟اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں اسے کیا جواب دوں؟۔