میری سوموار 8 اگست کو ایک مشترکہ دوست کے گھر میںوزیراعلیٰ پنجاب کے صاحب زادے مونس الٰہی سے ملاقات ہوئی‘ ملاقات ان کی خواہش پر ہوئی اور ان کا کہنا تھا آپ مجھ سے جو بھی پوچھیں گے میں آپ کو سچ سچ بتائوں گا اورفیصلہ آپ پر چھوڑ دوں گا‘ میں نے پہلا سوال کیا ’’آپ جب عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالا گئے تھے تو کیا چودھری شجاعت کو ڈیل کا علم تھا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ماموں کو سو فیصد معلوم تھا اور ہم ان کی مرضی سے گئے تھے‘ آپ ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں‘
آپ جانتے ہیں دوسری منزل پر چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی کے کمرے آمنے سامنے ہیں اور درمیان میں لائونج ہے‘ میرا کمرہ بھی وہیں ہے‘ملاقات سے پچھلی رات ماموں (چودھری شجاعت) صوفے پر لیٹے ہوئے تھے‘ ہم سب ان کے سامنے بیٹھے تھے‘ ماموں نے کہا‘ ہم نے بس سی ایم بننا ہے خواہ ہمیں کالا چور بنائے‘ میں نے ماموں سے پوچھا اگر ن لیگ اور پی ٹی آئی کی چیف منسٹری میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہو توکون سی بہتر ہوگی؟ ماموں کا جواب تھا‘ عمران خان‘ میں نے انہیں بتایا‘ صبح پی ٹی آئی کا وفد آ رہا ہے‘ میں نے ان سے کہہ دیا ہے آپ کے پاس اگر ٹھوس آفر ہے تو آپ آئیں ورنہ ہماری طرف سے انکار ہے‘ ماموں نے کہا‘ ٹھیک ہے آپ بات کرو‘ اگلے دن پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر آ گئے‘ یہ واپس گئے تو مجھے ایم ایس کا فون آگیا‘‘ مونس الٰہی رکے اور پوچھا ’’کیا آپ پرویز خٹک فارمولے سے واقف ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’جی ہاں پرویز خٹک جب عمران خان سے فائنل اپروول لیتے ہیں تو یہ ان سے کہتے ہیں آپ اگر اس بات سے پیچھے ہٹے تو میں میڈیا میں جا کر کہہ دوں گا عمران خان نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور یہ بات سے پھر گیا‘ عمران خان اگر اوکے کر دیں تو پرویز خٹک پھر بات آگے بڑھاتے ہیں ورنہ سائیڈ پر ہو جاتے ہیں‘ یہ تکنیک پرویز خٹک فارمولا کہلاتی ہے‘‘ مونس الٰہی ہنس کر بولے ’’بالکل صحیح‘ ہم نے فیصلہ کیا تھا ہمیں جب تک پرویز خٹک نہیں کہیں گے ہم اس وقت تک وزیراعظم سے نہیں ملیں گے چناں چہ جب ایم ایس کا فون آیا تو میں نے احمد بھائی سے کہا‘ میں پرویز خٹک سے بات کر کے بتاتا ہوں‘ ایم ایس نے جواب دیا‘ آپ خٹک صاحب سے خود بات کر لیجیے اور فون خٹک صاحب کو پکڑا دیا‘ خٹک صاحب نے مجھ سے کہا‘ میری خان سے بات ہو گئی ہے‘ آپ لوگ آ جائیں اور یوں ہم بنی گالا روانہ ہو گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا چودھری شجاعت اور سالک صاحب اس بیک گرائونڈ سے واقف تھے؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’سالک نے ہمارے ساتھ بنی گالا جانا تھا‘
ان کا نام گیٹ اور مہمانوں کی فہرست میں شامل تھا لیکن جب جانے کی باری آئی تو یہ فون کان سے لگا کر باہر نکل گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے جب عمران خان کے ساتھ ڈیل کی تو کیا چودھری شجاعت فیملی نے آپ سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لیا؟‘‘ یہ بولے ’’ہرگز نہیں‘ ہم ایک ہی گھر میں رہتے رہے‘ سالک حسین 16 اپریل 2022ء کے وزیراعلیٰ کے الیکشن کے لیے میرے ساتھ ووٹ مانگتے رہے‘
یہ ابا (چودھری پرویز الٰہی) کے ساتھ میٹنگز میں بھی جاتے رہے اور میرے ساتھ پی ٹی آئی کے منحرف ایم پی ایز سے بھی ملتے رہے‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’مثلاً عائشہ نواز پی ٹی آئی کی ایم پی اے تھیں‘ یہ ان 25 ارکان میں شامل تھیں جنہوں نے 16 اپریل کو حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا‘ سالک حسین کا ایک دوست علی ان کو جانتا تھا‘ سالک نے علی کے ذریعے میری عائشہ سے ملاقات کرائی‘
ہم دونوں ایم ایم عالم روڈ پر علی کے پینٹ ہائوس میں عائشہ نواز سے ملے اور ان سے بارگیننگ کرتے رہے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ لوگ اگر اتنے قریب تھے تو پھر چودھری شجاعت کا 22 جولائی کا خط سمجھ نہیں آتا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہم جب تک ہار رہے تھے ان لوگوں کو کوئی ایشو نہیں تھا لیکن جوں ہی پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشنز میں 15 سیٹیں حاصل کر لیں اور ابا سی ایم بنتے نظر آئے تو یہ ہم سے ناراض ہو گئے‘‘۔
میں نے مونس الٰہی سے سے پوچھا’’ چودھری شجاعت سے 22جولائی کا خط کس نے لکھوایا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ محسن کا کارنامہ تھا‘ آپ محسن کو جانتے ہیں‘ شجاعت صاحب کے دو بھائی اور چھ بہنیں (کل نو بہن بھائی) ہیں‘ ان کی ایک ہمشیرہ قیصرہ الٰہی میری والدہ ہیں جب کہ میرے والد تین بھائی اور دو بہنیں ہیں‘ میری ایک پھوپھو کوثرالٰہی چودھری شجاعت کی بیگم ہیں جب کہ دوسری پھوپھو نگہت الٰہی ایس ایس پی اشرف مارتھ شہید کی بیگم ہیں‘ نگہت پھوپھو کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا (منتہیٰ) ہے‘
ایک بیٹی سالک حسین کی بیگم جب کہ دوسری محسن کی بیوی ہے‘ محسن ایک ویل لنکڈ شخص ہے‘ یہ آصف علی زرداری کا دوست بھی ہے‘ شہباز شریف فیملی کا بزنس پارٹنر بھی ہے اور شجاعت صاحب کا رشتہ دار بھی ہے‘ ہماری پی ڈی ایم کے ساتھ ڈیل میں یہ اہم لنک تھا‘ 21جولائی کو زرداری صاحب کو شجاعت کے گھر بھی یہ لے کر آیا تھا اور خط بھی اسی نے لکھوایا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا 22 جولائی کے الیکشن سے قبل آپ کی چودھری شجاعت اور سالک حسین سے ملاقات ہوئی تھی؟‘‘
یہ بولے ’’میں 20 جولائی کو لاہور میں ان سے ملا تھا‘ اس ملاقات کے گواہ میرے چچا ثبات الٰہی اور ان کی بیگم بھی ہیں‘ میں نے ماموں سے کہا‘ آپ ابا کو چیف منسٹر دیکھنا چاہتے تھے‘ اللہ ہمیں موقع دے رہا ہے‘ ہمیں اب اختلافات ختم کر دینے چاہییں‘ ماموں نے کہا‘ ٹھیک ہے‘ آپ چیف منسٹر بنیں‘ ہم اس کے بعد ملیں گے‘ انہوں نے یہ بھی کہا‘ تم سالک کو بھی بتا دو‘ میں نے اسی وقت سالک کو میسج کر دیا اور اس کا اوکے کا جواب بھی آگیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اس ملاقات میں شجاعت صاحب نے کوئی شکوہ کیا تھا؟‘‘
یہ ہنس کر بولے ’’ہاں کیا تھا‘ ان کا کہنا تھا میں نے پرویز کو دو مرتبہ فون کیا لیکن اس نے فون نہیں سنا‘ میں نے پھر خالد رحمن کو اسمبلی بھجوایا لیکن یہ اسے بھی نہیں ملا (خالد رحمن چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے جوانی کے گہرے دوست ہیں) میں نے ماموں کو بتایا‘ ابا اس وقت 15 نئے ایم پی ایز کا حلف لے رہے تھے بہرحال قصہ مختصر گلہ شکوہ ختم ہوگیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اس کے بعد آپ کی ان سے کوئی ملاقات ہوئی؟‘‘ یہ بولے ’’میں 22 جولائی کی صبح ایک بار پھر ان کے پاس گیا تھا‘
یہ لائونج میں ویل چیئر پر بیٹھے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا‘ ماموں کیا آپ نے ڈپٹی سپیکر کو خط لکھا ہے‘ انہوں نے جواب دیا ہاں میں نے لکھا ہے‘ میں نے کہا‘ اس کا مطلب یہ ہے آپ ابا کو سی ایم نہیں دیکھنا چاہتے‘ ماموں نے مجھے اشارہ کیا‘ آپ مجھے سائیڈ پر لے جائو‘ میں نے ان کی ویل چیئر کو پش کیا اور انہیں دوسروں سے دور دروازے کے قریب لے گیا لیکن سالک بھی ساتھ ہی آ گیا‘
میں نے دوبارہ خط کا پوچھا‘ یہ بولے‘ مجھے عمران خان کا سی ایم قبول نہیں‘ پرویز صرف میرا سی ایم بنے گا‘ یہ ہمارے ساتھ آ جائے‘ میں دو دن میں اسے سی ایم کی کرسی پر بٹھا دوں گا‘ میں نے کہا‘ ماموں ہم عمران خان کے امیدوار ہیں‘ ہم آج کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟ آپ سے اس طرح ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا‘ سالک فوراً بولا‘ تعلق رہ کہاں گیا ہے اور یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے ان کی ویل چیئر کو پش کر کے انہیں پنجاب اسمبلی لے جانے کی کوشش کی تھی؟‘‘ وہ بولے ’’ہاں میں انہیں پنجاب اسمبلی لے جانے کے لیے گیا تھا‘ میں نے انہیں سب سے پہلے یہی کہا تھا‘ ماموں چلیں آج ابا کا الیکشن ہے‘ میں آپ کو لے جانے آیا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا وہ خط چودھری شجاعت نے خود لکھا تھا؟‘‘ وہ بولے ’’دستخط واقعی ان کے تھے لیکن ٹائپ محسن نے ان کے بیٹوں کے ساتھ مل کر کیا تھا‘ ماموں نے مجھے بتایا تھا میں نے ایم پی ایز کو خط لکھا ہے‘
یہ ووٹنگ کے دوران کسی کو بھی ووٹ نہ دیں لیکن جب خط باہر آیا تو اس میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا حکم تھا‘ یہ لائین کس نے لکھی اللہ بہتر جانتا ہے‘‘۔میں نے پوچھا ’’کیا فیملی میں پہلے سے اختلافات موجود تھے‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ماموں اور میرے درمیان کبھی نہیں تھے‘ میں پورے خاندان میں ماموں کے سب سے زیادہ قریب تھا‘ یہ میرے سیاسی استاد تھے‘ انہوں نے میری ہر جگہ گرومنگ کی‘ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ میٹنگ ہو یا جنرل کیانی‘ زرداری صاحب‘ عمران خان یا پی ڈی ایم کے ساتھ ڈیل ہو یہ مجھے ہمیشہ ساتھ لے کر گئے‘ ابا مجھے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے‘
یہ کہتے تھے یہ لڑکا ہے اسے ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے لیکن ماموں لے کر جاتے تھے‘ یہ میرے ساتھ دل کی ہر بات بھی کرتے تھے‘ ہم دونوں نے مل کر پرویز صاحب کے ساتھ بھی کئی بار گیمزکیں‘ ماموں کمال انسان ہیں‘ یہ جب چاہتے ہیں یہ بیمار بن جاتے ہیں‘ یہ چپ چاپ لیٹ جائیں گے‘ آپ بلاتے رہیں یہ آنکھیں نہیں کھولیں گے‘ ان کی بات بھی کسی کو سمجھ نہیں آئے گی اور یہ بھول جانے کا تاثر بھی دیں گے لیکن یہ جب چاہیں گے تو یہ ٹھیک ٹھاک ایکٹو ہو جائیں گے‘
میں ان کی اس عادت سے واقف ہوں چناں چہ یہ میرے ساتھ مل کر اپنے بچوں تک سے گیم کر جاتے تھے‘ میں نے زندگی میں اپنے والد سے بڑھ کر ان کی عزت کی‘ مجھے اب بھی انہوں نے دو مرتبہ فون کیا لیکن میں نے انہیں کال بیک نہیں کی اور مجھے اس کی بہت تکلیف ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر اختلاف کہاں سے آ گیا؟‘‘ یہ بولے ’’ایشو خاندانی پراپرٹی سے شروع ہوا تھا‘‘ (جاری ہے)۔