ہمارے سامنے ذہنی معذور نوجوان بیٹھا تھا‘ وہ نوجوان ہوش اور حواس سے بہت دور دنیا کے ہر تقاضے سے محروم تھا‘ چاولوں کی پلیٹ اس کے سامنے پڑی تھی اور وہ جانوروں کی طرح دونوں ہاتھوں سے چاول پھانک رہا تھا‘ آدھے چاول اس کے منہ سے واپس پلیٹ میں گر جاتے تھے اور آدھے وہ چپڑ چپڑ نگل جاتا تھا‘ اس کے منہ سے رال بھی ٹپک رہی تھی
اور ناک کے ایک سوراخ سے سیاہ گندی رطوبت سرک کر ہونٹ پر آ کر ٹھہر گئی تھی اور اس کے منہ چلانے کے ساتھ ہر بار یوں محسوس ہوتا تھا یہ رطوبت اس کے منہ میں چلی جائے گی‘ اس کے سر پر کھمبیوں جیسے بڑے بڑے پھوڑے تھے اور ان پھوڑوں سے پیلے رنگ کی گاڑھی پیپ نکل رہی تھی اور پیپ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ وہ بھنبھناہٹ سے تنگ آ کر مکھیاں اڑاتا تھا تو یہ کمرے کا چکر لگا کر دوبارہ اس کے سر پر بیٹھ جاتی تھیں‘ اس کی گردن پر میل تارکول کی طرح جمی تھی اور کپڑوں سے بُوکے بھبھوکے اٹھ رہے تھے‘ اس کے ناخن لمبے اور ناتراشیدہ تھے اور ان میں میل جمی تھی‘ اس کی ایڑھیاں پھٹی تھیں‘ پائوں پر کیچڑ کی تہیں جمی تھیں اور رہ گیا اس کا جسم تو شاید اسے نہائے کئی برس ہو چکے تھے۔ غرض وہ ہر لحاظ سے بدبو‘ کراہت اور بدصورتی کا خوف ناک نمونہ تھا‘ ہم صاف ستھرے‘ پڑھے لکھے اور جمالیاتی حسوں سے لبریز لوگ تھے اور بابا جی کے پاس روح کی گتھیاں سلجھانے کے لیے آئے تھے‘ بابا جی ہمارے درمیان موجودتھے‘ ہم نرم اونی قالین پر گائو تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے‘ ہمارے سامنے چائے کے کپ پڑے تھے‘ درمیان میں مٹھائی کی طشتری تھی اور ہم روح کی باریکیوں پر گفتگو کر رہے تھے۔ہمارے ساتھ نفسیات کے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھے‘ یہ تصوف پر ریسرچ کر رہے تھے اور یہ اس ریسرچ کے سلسلے میں دنیا جہاں کی سیر کر چکے تھے‘ وہ ہمیں بتا رہے تھے روح کا وزن 21 یا 67 گرام ہوتا ہے‘
یہ جب انسان کے جسم سے نکلتی ہے تو انسان کا وزن 21 یا 67 گرام کم ہو جاتا ہے‘ بابا جی بڑے غور سے یہ گفتگو سن رہے تھے لیکن ڈاکٹر کی گفتگو میں تسلسل نہیں آ رہا تھا‘ ہم سننے والے بھی ڈسٹرب تھے ۔آپ خود اندازا کیجیے آپ خوب صورت علمی ماحول میں بیٹھے ہوں اور آپ کے اردگرد سکالر لوگ جمع ہوں لیکن ان سکالرز کے عین درمیان ایک پاگل نوجوان بیٹھا ہو اور یہ نوجوان دونوں ہاتھوں سے چاول پھانک رہا ہو
اور مکھیاں اڑاتا ہو اور اس کے بدن سے بو کے بھبھوکے اٹھتے ہوں اور اس کے سر سے پیپ بہہ بہہ کر ماتھے پر گر رہی ہو اور ناک کی رطوبت ہونٹوں پر آ کر رک گئی ہو اور گردن پر جی ہاں گردن پر میل کی لکیریں کھدی ہوں اور ان لکیروں کے درمیان سے اس کی خارش زدہ سرخ جلد نظر آتی ہو تو کیا آپ روح اور روحانیت جیسے حساس موضوع پر گفتگو کر سکیں گے‘ کیا آپ ڈسٹرب نہیں ہوں گے‘
آپ بھی یقینا ڈسٹرب ہوں گے لہٰذا ہم بھی پریشان تھے اور ہماری یہ پریشانی باربار ہماری گفتگو کا ربط توڑ رہی تھی اور ہم بے چینی میں بار بار کروٹیں بدلتے تھے‘ بابا جی ہماری پریشانی بھانپ گئے‘ انہوں نے خادم کو اشارہ کیا‘ خادم گرم پانی کی بالٹی لے آیا‘ اس نے وہ بالٹی پاگل نوجوان کے قریب رکھ دی‘
وہ اس کے بعد سٹیل کی ایک خالی پرات لایا‘ صاف ستھرا تولیا لایا‘ باریک ململ کا ایک تھان لایا اور یہ سارا سامان بھی پاگل نوجوان کے قریب رکھ دیا‘ اس کے بعد بابا جی اپنی جگہ سے اٹھے‘ نوجوان کے پاس آئے‘ خادم سے اس کے سامنے سے چاولوں کی پلیٹ اٹھوائی‘ نوجوان کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرا‘ تھان سے ململ کا بڑا سا ٹکڑا پھاڑا‘ اس کا گولہ بنایا‘
بالٹی میں ڈبویا اور ململ سے نوجوان کا سر اور منہ صاف کرنے لگے‘ وہ ململ پانی میں ڈبوتے تھے‘ اس کے سر اور منہ پر پھیرتے تھے اور اس کے بعد پرات میں نچوڑ دیتے تھے۔ پانی میں شاید لیموں اور شیمپو گھلا ہوا تھا‘ ہمیں دور سے شیمپو اور لیموں کی خوشبو آ رہی تھی‘
یہ منظر پہلے منظر سے زیادہ عجیب تھا۔ آپ خود اندازہ کیجیے ‘ ایک نہایت ہی معزز اور پڑھا لکھا صوفی بزرگ اپنی نشست گاہ میں قالین پر ایک مجذوب نوجوان کا منہ دھو رہا تھا اور وہ نوجوان خوشی سے دانت نکال رہا تھا۔ باباجی نے اسے گردن تک صاف کیا‘ اس کے بعد اس کے ہاتھ اور پائوںدھوئے
اور اس کے بعد خادموں کو اشارہ کیا‘ خادم بالٹی‘ پرات‘ ململ کا تھان اور اس نوجوان کو اٹھا کر باہر لے گئے‘ بابا جی نے تولیے سے ہاتھ صاف کیے اور دوبارہ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ ہم حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے‘ وہ مسکرائے اور ہماری طرف دیکھ کر بولے ’’یہ پاگل‘ پاگل نہیں‘
یہ میرا اللہ سے براہ راست رابطہ ہے ‘ یہ میری روحانیت‘ میرا تصوف ہے‘‘ ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ’’ہمارے دل اور روح کے درمیان ایک راستہ ہوتا ہے‘ یہ ہدایت‘ سلوک اور مسرت کا راستہ ہے‘ آپ جب اس راستے پر پائوں رکھ دیتے ہیں تو آپ اللہ کے نور اور خوشبو کو اپنے ارد گرد محسوس کرتے ہیں‘ یہ خوشبو اور نور آپ کو وہ مسرت دیتا ہے
جو آپ کو زندگی کی کوئی دوسری کام یابی‘ دنیا کی کسی دوسری لذت میں نہیں ملتی چناںچہ آپ دنیا اور اس کے تقاضوںسے لا تعلق ہو جاتے ہیں‘ تصوف دنیا کی مکروہات سے لاتعلقی کا نام ہے‘ صوفی موم کے اس کاغذ کی طرح ہوتا ہے جسے آپ رنگوں کے ڈرم میں ڈبو دیتے ہیں لیکن آپ اسے جونہی باہر نکالتے ہیں اس کے جسم پر کسی رنگ کا چھینٹا تک نہیں ہوتا‘ صوفی رنگوں کی اس دنیا میں رہتا ہے
لیکن موم کے کاغذ کی طرح اس پر بھی دنیا کا کوئی رنگ نہیں چڑھتا لیکن موم بننے کے لیے دل کا وہ راستہ کھولنا پڑتا ہے جو روح کی طرف نکلتا ہے‘‘ ہم نے پوچھا ’’یہ راستہ کہاں ہوتا ہے‘‘ وہ بولے ’’ یہ راستہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ہوتا ہے اور انسان اس وقت تک اس راستے تک نہیں پہنچ پاتا
جب تک یہ اپنا دل کھلا نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں‘ یہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی رزق‘ صحت‘ زندگی‘ عزت‘ شہرت اور دولت دیتا ہے‘ یہ خدائی کے دعوے داروں کو بھی کسی چیز کی کمی نہیں آنے دیتا‘ یہ ہرن کو بھی بڑے پیار سے پالتا ہے
اور خنزیر کو بھی خوراک‘ پانی‘ پناہ اور زندگی دیتا ہے‘ یہ آپ پر بھی مہربان ہے اور یہ اس پاگل نوجوان کی ضرورتوں سے بھی واقف ہے‘ یہ مائیکرو سکوپک جرثوموں سے لے کر وہیل مچھلیوں تک سب پر کرم اور رحم کرتاہے اور یہ اپنے بڑے سے بڑے گستاخ پر بھی زندگی کی رسی دراز رکھتا ہے‘
اللہ تعالیٰ وسیع القلب ہے اور یہ وسیع القلب لوگوں کو پسند کرتا ہے چناںچہ آپ جب اپنا دل کھولنے لگتے ہیں‘ آپ دل میں وسعت پیدا کر لیتے ہیں تو آپ کے دل میں چھپا وہ راستہ کھل جاتا ہے جو آپ کو روح کی طرف لے جاتا ہے اور آپ اس کے بعد روح کے اس گلستان میں اتر جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا نور اور خوشبو دونوں ہیں‘‘۔ ہم حیرت سے ان کی طرف دیکھتے رہے۔
بابا جی نے فرمایا ’’آپ جب تک اپنا دل کھلا نہیں کرتے‘ آپ کے پہلو میں پہنچ کر جب تک ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ بودھ‘ ملزم‘ مجرم‘ گناہگار اور دنیادارسب سکون محسوس نہیں کرتے‘ یہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے‘ آپ پر اس وقت تک روحانیت کے دروازے نہیں کھل سکتے ‘‘
بابا جی بولے ’’آپ کی نظر میں یہ نوجوان پاگل یا مجذوب تھا لیکن یہ میرے لیے روحانی سکون‘ روحانی وظیفہ اور روحانی منزل تھا‘ یہ میرے دل کی وسعت کا امتحان تھا‘ میں اگراس سے نفرت کرتا‘ اس سے پرہیز کرتا یا میرے دل میں کراہت پیدا ہو جاتی تو شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جاتا اور مجھ سے اپنا نور اور اپنی خوشبو چھین لیتا ‘ یہ نوجوان جب تک میرے پاس بیٹھا رہا
میں اپنا دل ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا رہا اور مجھے محسوس ہوا میرے دل میں کسی جگہ اس کے بارے میں کوئی کراہت نہیں ‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس شکر کے بدلے میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر‘ منہ‘ ہاتھ اور پائوں دھوئے‘ میرے ملازم اب اسے نہلا رہے ہیں‘ یہ نہلا نے کے بعد اسے میرے کپڑے پہنائیں گے اور میں اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائوں گا‘
یہ اللہ کے کرم کا چھوٹا سا شکر ہوگا‘‘ باباجی نے لمبی سانس لی اور آہستہ سے بولے ’’آپ کو اولیائے کرام کے ڈیروں‘ مزاروں اور گدیوں پر ایسے درجنوں مجذوب ملیں گے‘ یہ مجذوب ان کے ولی ہونے کی نشانی ہوتے ہیں‘ ولی کا دل کھلا ہوتا ہے ‘
یہ کبھی ان سے کراہت محسوس نہیں کرتا چناںچہ مجذوب لشکروں کی شکل میں ان کے ڈیروں پر آتے رہتے ہیں جب کہ آپ ان مجذوبوں کو کبھی کسی دنیادار کی دہلیز پر نہیں دیکھیں گے کیوں؟ کیوںکہ دنیادار کا دل تنگ ہوتا ہے‘ یہ ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرتا
چناں چہ دنیا دار اللہ کے نور اور خوشبو سے بھی دور ہوتے ہیں اور روحانی منازل سے بھی‘‘ بابا جی رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’روح کے دروازے کی چابی اکثر ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جن سے دنیا کو کراہت آتی ہے‘ آپ اگر روح کے سمندر میں ڈوبنا چاہتے ہیں
تو اپنا دل کھلا کریں اور ان لوگوں کا منہ دھوئیں جو خود اپنا منہ نہیں دھو سکتے ‘ آپ کو اللہ تعالیٰ مل جائے گاورنہ آپ عبادات کی گلیوں میں پھرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ سے دور‘ دور اور دور ہوتا جائے گا یہاں تک کہ آپ اللہ کی الف تک نہیں پا سکیں گے۔